Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 68
وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَۙ
وَاَوْحٰى : اور الہام کیا رَبُّكَ : تمہارا رب اِلَى : طرف۔ کو النَّحْلِ : شہد کی مکھی اَنِ : کہ اتَّخِذِيْ : تو بنا لے مِنَ : سے۔ میں الْجِبَالِ : پہاڑ (جمع) بُيُوْتًا : گھر (جمع) وَّ : اور مِنَ : سے۔ میں الشَّجَرِ : پھل وَمِمَّا : اور اس سے جو يَعْرِشُوْنَ : چھتریاں بناتے ہیں
اور (دیکھو کس طرح) تمہارے رب نے شہد کی مکھی کے جی میں یہ بات ڈال دی، کہ تو گھر (یعنی اپنے چھتے) بنا پہاڑوں میں بھی، درختوں میں بھی، اور ان چھتوں میں بھی جو یہ لوگ (اس غرض کے لئے) بناتے ہیں،
130۔ شہد کی مکھی میں درس عبرت و بصیرت : سو ارشاد فرمایا گیا " اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تم گھر بنا " یعنی وحی کا لفظ یہاں پر اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی القاء اور الہام کے معنی میں۔ نہ کہ اصلاحی معنوں میں۔ کہ وہ حضرات انبیاء ورسل کے ساتھ خاص ہے۔ اور نبوت و رسالت کی یہ معروف اور اصلاحی وحی حضرات انبیاء ورسل ہی کیلئے مختص ہے۔ اور ان کے سوا کسی اور کو نہیں ہوسکتی۔ بہرکیف یہ امر بھی قدرت کے عجائبات میں سے ایک ہے کہ اس نے شہد کی مکھی کے اس چھوٹے سے وجود کے اندر یہ بات ڈال دی اور اس کو یہ امر القاء کردیا کہ وہ پہاڑوں درختوں اور لوگوں کی بنائی ہوئی چھتوں میں ایسے عظیم الشان گھر بنائے جن سے انسان کی عقل رہ جاتی ہے۔ بہر کیف وحی سے یہاں پر مراد وہ جبلی اور فطری وحی ہے جو ہر مخلوق کو اس کی طبیعت و فطرت میں ودیعت فرمودہ صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے بارے میں فاطر فطرت وجبلت کی طرف سے فرمائی گئی ہے۔ جس میں بڑے درسہائے عبرت و بصیرت ہیں۔
Top