Maarif-ul-Quran (En) - Al-Hijr : 72
وَ اللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ١ۚ فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّیْ رِزْقِهِمْ عَلٰى مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَهُمْ فِیْهِ سَوَآءٌ١ؕ اَفَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ
اور (دیکھو) اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت (و فوقیت) بخشی رزق (وروزی) میں، پھر وہ لوگ جن کو یہ فضیلت دی گئی ہے ایسے نہیں کہ وہ پھیر دیں اپنے رزق (و روزی) کو اپنے غلاموں کی طرف، اس طور پر کہ وہ سب اس میں برابر ہوجائیں، تو کیا یہ لوگ پھر بھی اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں ؟
140۔ رزق وروزی بھی خداوند قدوس ہی کا عطیہ واحسان ہے : چناچہ ارشاد فرمایا گیا اور اللہ ہی نہ تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے روزی میں کسی کو امیر بنایا تو کسی کو فقیر، کسی کو بہت مالدار اور کسی کم۔ کسی کو آقا ومالک اور کسی کو غلام ومملوک وغیرہ وغیرہ۔ سواحوال وظروف کا یہ اختلاف جہاں اس قادر مطلق کی قدرت کاملہ کا ایک عظیم الشان مظہر ہے۔ وہاں یہ تمہارے لئے اے لوگو اس کی ایک عظیم الشان رحمت اور عنایت بھی کہ اس سے تمہارے باہمی تعاون وترابط کا سلسلہ بھی قائم ہے اور تمہیں ایک دوسرے کے کام آنے، خدت کرنے اور خدمت لینے اور اجروثواب کمانے کا موقع بھی ملتا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا۔ (ورفعنا بعضہم فوق بعض درجات لیتخذ بعضہم بعضا سخریا) الایۃ (الزخروف : 32) سو اگر یہ سب لوگ ایک ہی برابر ہوتے تو ایسے کبھی نہ ہوسکتا۔ اور یہ درجہ بندی بھی اس قادر مطلق نے اس درجہ کمال حکمت سے فرمائی کہ ہر کوئی اپنی جگہ خوش اور مست ومگن ہے۔ اور وہ ایک ہی وقت میں دوسروں کے کام بھی آتا ہے اور اپنی طرح طرح کی چیزوں کی تکمیل کے سلسلے میں ان کا محتاج بھی ہے۔ فسبحانہ من خالق عظیم قادر قیوم جل وعلا۔ بہرکیف اس سے واضح فرمادیا گیا کہ رزق وروزی بھی اللہ ہی کا عطیہ واحسان ہے۔ پس نہ تو انسان اس کو اپنے کمال کا نتیجہ سمجھے اور نہ ہی اس کو دوسروں کی طرف منسوب کرکے ناشکری اور کفران نعمت کا ارتکاب کرے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا کی راہوں پر ہی چلنا نصیب فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 141۔ توحید کیلئے ایک فطری دلیل کی طرف راہنمائی : سو اس سے انسانی فطرت میں موجود توحید کی ایک اہم دلیل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا پھر یہ لوگ ایسے نہیں کہ روزی کو اپنے ماتحتوں پر اس طرح پھیر دیں کہ وہ سب برابر ہوجائیں حالانکہ تم سب آپس میں مخلوق اور انسان ہونے میں برابر ہو۔ تو جب اس کے باوجود تمہیں یہ شرکت گوارا نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی مخلوق میں سے کسی کی شرکت کیسے گوارا کرتے ہو ؟ اور کس طرح اس کیلئے طرح طرح کے شریک ٹھہراتے ہو۔ (مالکم کیف تحکمون ؟ ) سو اس اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مشرک لوگوں کی مت کیسی ماردی جاتی ہے کہ وہ مالک کے غلاموں اور اس کے ماتحتوں کا اپنے مالک اور بڑے کے برابر اور اس کے مساوی ہونا گوارا نہیں کرتے لیکن خداوند قدوس جو کہ سب کا خالق ومالک ہے اس کے ساتھ اس کی مخلوق کو شریک جانتے اور اس کی خدائی میں حصہ دار مانے ہیں۔ سو کتنے اندھے اور کس قدر اوندھے ہوگئے یہ لوگ ؟ بہرکیف اس ارشاد سے فطرت انسانی میں پیوست ایک اہم دلیل کی طرف انسان کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے تاکہ وہ سوچے اور غور وفکر سے کام لے کر شرک کے اندھیروں سے نکل کر نور اور حق و ہدایت کے طریق مستقیم کی طرف آسکے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔ 142۔ منکرین و مشرکین کے دلوں پر ایک دستک : سو منکر اور مشرک انسانوں کے قلوب وضمائر پر ایک دستک کے طور پر ارشاد فرمایا گیا اور بطور استفہام ارشاد رمایا گیا کہ بخشی تو یہ سب نعمتیں ان کو اللہ تعالیٰ نے دی ہیں اور محض اپنے کرم واحسان سے بخشی ہیں مگر یہ لوگ ان کو اوروں کی طرف منسوب کرکے انکو ان کی مہربانی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اور انہی کے نام کی نذریں مانتے اور نیازیں دیتے ہیں۔ والعیاذ باللہ۔ نیز حق صریح کے آجانے اور راہ ہدایت کے واضح ہوجانے اور ایسے قطعی دلائل کے قائم ہوجانے کے بعد بھی تم لوگ راہ حق کے خلاف گامزن ہو اور نعمت حق و ہدایت کی قدر نہیں کرتے، حالانکہ حق و ہدایت کی نعمت سب سے بڑھ کر عظیم الشان اور جلیل القدر نعمت ہے۔ جس جیسی دوسری کوئی بھی نعمت نہیں ہوسکتی (محاسن التاویل) سو اس سے امر کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی دی اور بخشی ہوئی نعمتوں میں کسی بھی اور کو شریک کرنا اور اس کو اس میں ساجھی اور حصے دار ماننا کھلا ہوا جو شرک اور صریح انکار ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top