Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 80
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُیُوْتِكُمْ سَكَنًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ جُلُوْدِ الْاَنْعَامِ بُیُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَهَا یَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَ یَوْمَ اِقَامَتِكُمْ١ۙ وَ مِنْ اَصْوَافِهَا وَ اَوْبَارِهَا وَ اَشْعَارِهَاۤ اَثَاثًا وَّ مَتَاعًا اِلٰى حِیْنٍ
وَاللّٰهُ : اور اللہ جَعَلَ : بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے بُيُوْتِكُمْ : تمہارے گھروں سَكَنًا : سکونت کی (رہنے کی) جگہ) وَّجَعَلَ : اور بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے جُلُوْدِ : کھالیں الْاَنْعَامِ : چوپائے بُيُوْتًا : گھر (ڈیرے) تَسْتَخِفُّوْنَهَا : تم ہلکا پاتے ہو انہیں يَوْمَ ظَعْنِكُمْ : اپنے کوچ کے دن وَيَوْمَ : اور دن اِقَامَتِكُمْ : اپنا قیام وَ : اور مِنْ : سے اَصْوَافِهَا : ان کی اون وَاَوْبَارِهَا : اور ان کی پشم وَاَشْعَارِهَآ : اور ان کے بال اَثَاثًا : سامان وَّمَتَاعًا : اور برتنے کی چیزیں اِلٰىحِيْنٍ : ایک وقت (مدت
اور اللہ ہی نے رکھ دیا تمہارے لئے گھروں میں سکون (اطمینان) کا سامان اور اسی نے تمہارے لئے جانوروں کی کھالوں کے ایسے گھر بنا دئیے، جن کو تم لوگ ہلکا پاتے ہو اپنے سفر کے دوران بھی، اور اپنے ٹھہراؤ کے دوران بھی، اور اس نے (ان جانوروں میں سے) بھیڑوں کی اون، اونٹوں کی روؤں اور بکریوں کے بالوں سے تمہارے لئے گھروں کا سامان اور (قسما قسم کے) فائدے کی دوسری چیزیں پیدا فرمائیں، ایک مدت مقررہ تک
162۔ تمہارے گھروں میں سامان غور و فکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اور اللہ ہی نے رکھ دیا تمہارے گھروں میں تمہارے لئے سکون (واطمینان) کا سامان۔ جس سے تم لوگ دن رات مستفید ہوتے رہتے ہو۔ مگر تم یہ نہیں سوچتے کہ یہ کس کا کرم ہے اور اس کا ہم کیا حق ہے ؟ سو تمہارے رب نے تم پر کیسا کرم فرمایا کہ تم لوگ جب اپنے کام کاج سے تھکے ماندے واپس لوٹتے ہو تو تمہیں اپنے گھروں میں خاص راحت ملتی ہے اور تم آرام پاتے ہو۔ اور یہ گھر بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو مٹی پتھر اور سیمنٹ سریا وغیرہ کے مستقل گھر ہوتے ہیں۔ جو ایک ہی جگہ برقراررہتے ہیں۔ اور دوسرے خیموں وغیرہ کے وہ گھر جن کو تم جہاں چاہو اپنے ساتھ لے جاسکتے ہو۔ ان سب میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے سکون واطمینان کا عظیم الشان سامان رکھا ہے۔ 63۔ چوپایوں سے متعلق ایک نعمت کی تذکیرویاد دہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اسی نے تمہارے لیے چوپایوں کے چمڑوں کے گھربنائے۔ جو کہ قدرت کا تم پر ایک اور کرم واحسان ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا " اور اسی نے تمہارے لیے چوپایوں کے چمڑوں سے بھی گھربنادیئے " یعنی قسما قسم کے خیمے وغیرہ جن سے تم لوگ طرح طرح کے فائدے اٹھاتے ہو۔ سو اپنے ان ہلکے پھلکے گھروں کو تم لوگ جہاں چاہو اٹھا کرلے جاتے ہو، اور جہاں چاہوخیمہ زن ہوجاتے ہو۔ سو تم لوگ اگر سوچو اور غورفکر سے کام لوتوتم کو اپنے انہی مکانوں کے اندرعظیم الشان درس ہائے عبرت و بصیرت ملیں جنہوں نے تمہیں چاروں طرف سے آغوش مادر کی طرح اپنے گھیر میں لے رکھا ہے کہ یہ سب کچھ پیدا کس نے کیا ؟ اور تم کو اس عقل وفکر اور علم و تجربہ سے کس نے نوازا ؟ سو وہی اللہ وحدہ لاشریک جو کہ معبود برحق ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 164۔ تمہارے لیے ہلکے پھلکے مکانوں کا انتظام : یعنی قابل انتقال ایسے خاص مکان جن کو تم ہلکا پاتے ہو اپنے سفروحضر میں اور تمہیں ان کے اٹھانے اور نصب کرنے میں کوئی زیادہ مشقت اٹھانا پڑتی ہے اور نہ کوئی دقت ودشواری۔ سو یہ کتنی بڑی نعمت ہے جس سے اس منعم حقیقی نے تم کو نوازا ہے۔ سو ایک طرف تمہارے وہ مستقل اور ثابت گھر ہیں جو ایک ہی جگہ رہتے ہیں اور دوسری طرف تمہارے یہ عارضی اور قابل انتقال گھر ہیں جن کو تم جہاں چاہولے جاسکتے ہو۔ سو اس طرح اس خدائے مہربان نے تمہارے سکون واطمینان کے کیسے کیسے سامان پیدا فرمائے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو طرح طرح کے ان سامان ہائے زیست میں رہنا بسنا اور سکون وراحت کی دولت سے سرفراز ہوتے رہنے کے باوجود اس خالق ومالک کو بھول جانا کتنی بڑی ناشکری اور کس قدر ظلم وبے انصافی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ظلم اور ناشکری کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ رکھے آمین ثم آمین۔ 165۔ آثات منزل میں سامان غور و فکر : سو ارشاد فرمایا گیا اور اسی نے تمہارے گھروں کیلئے طرح طرح کے سامان اور فائدے کی چیز پیدا فرمائیں جن سے تم لوگ طرح طرح سے متمتع اور مستفید ہوتے ہو۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ یہ کس کا کرم واحسان ہے ؟ چناچہ تم لوگ بھیڑوں کی اونوں، اونٹوں کی روؤں اور بکریوں کے بالوں وغیرہ سے زینت وزیست کے طرح طرح سامان بناتے اور قسم قسم کی تجارت اور کاروبار کرتے اور دولت کماتے ہو۔ مگر تم نے کبھی یہ بھی سوچا کہ قسما قسم کا یہ خام مال تمہارے لئے پیدا کس نے کیا ؟ اور اس خدائے مہربان کا تم پر حق کیا ہے ؟ اور اس کے اس حق کی ادائیگی کس طرح ہوتی ہے ؟ سبحانہ وتعالی۔ 166۔ یہ سب کچھ عارضی وفانی : سو ارشاد فرمایا گیا ــ " یہ سب کچھ ایک مدت مقررہ تک کے لئے ہے اور بس " یعنی موت تک۔ قالہ ابن عباس۔ یا اس وقت تک کہ یہ چیزیں فائدہ پہنچانے اور کام دینے کے قابل ہوتی ہیں (قالہ المجاہد، جواہر، ابن کثیر، محاسن التاویل، المراغی وغیرہ) الفاظ کا عموم ان دونوں کو شامل اور عام ہے۔ سو اس مدت محدود تک فائدہ اٹھانے کے باوجود اگر تم لوگ واہب مطلق کو بھول جاؤتویہ کتنی بڑی ناانصافی اور کس قدر ظلم ہوگا۔ بہرکیف یہ سب کچھ عارضی اور ایک خاص وقت تک کیلئے ہے اور بس۔ سو بڑی گمراہی اور حماقت میں مبتلا ہیں وہ لوگ جو اسی متاع فانی اور حطام زائل کو اصل مقصد قرار دے کر اسی کیلئے جیتے اور اسی کے لئے مرتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ وانجام بڑا ہی ہولناک خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top