Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 9
وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَ مِنْهَا جَآئِرٌ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر قَصْدُ : سیدھی السَّبِيْلِ : راہ وَمِنْهَا : اور اس سے جَآئِرٌ : ٹیڑھی وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہے لَهَدٰىكُمْ : تو وہ تمہیں ہدایت دیتا اَجْمَعِيْنَ : سب
اور اللہ کے ذمے ہے (اس کے اپنے وعدہ کرم کے مطابق) سیدھا راستہ دکھانا، جب کہ راستے ٹیڑھے بھی ہیں، اور وہ اگر چاہتا تو (جبراً ) تم سب ہی کو راہ راست پر لے آتا،3
15۔ ہدایت و راہنمائی اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اور اللہ ہی کے ذمے ہے سیدھا راستہ دکھانا " قصد " اور " قاصد " کے معنی اس سیدھے راستے کے ہیں جو انسان کو منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔ (محاسن التاویل وغیرہ) اور یہ یعنی سیدھے راستے بیان کرنا اس رحمن ورحیم نے اپنی بےپیاں رحمت و عنایت کی بناء پر خود اپنے ذمے لیا ہے۔ ورنہ اس پر کوئی چیز واجب نہیں۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ مگر اس رب مہربان نے اپنے کرم واحسان کی بنا پر اپنے ذمے لیا ہے کہ وہ بندوں کو اس سیدھے راستے کی راہنمائی سے نوازے گا جو ان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرسکے۔ اس لئے کہ ایسی سیدھی راہ سے اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کوئی سرفراز کرسکتا ہی نہیں۔ اس لئے اس کو اس نے اپنے ذمے لیا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا۔ (ان علینا للھدی) ۔ (الیل : 12) بیشک ہمارے ذمے ہے ہدایت و راہنمائی " اور اس نے اپنے وعدہ کو پورا فرما دیا اور باحسن وجوہ پورا فرما دیا طرح طرح سے اپنی توحید کے دلائل قائم فرما کر۔ اپنے رسول بھیج کر۔ اور اپنی کتابیں اتار کر۔ اب جو ہدایت سے محروم ہیں تو ہدایت سے محروم ہیں تو وہ خود اپنی بدبختی اور بدنیتی کی وجہ سے ہی محروم ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور خاص کر خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی بعثت و تشریف آوری کے بعد آپ ﷺ کے ذریعے دنیا کو قرآن حکیم کے اس کامل ہدایت نامہ سے سرفراز فرما دیا گیا جو قیامت تک سب زمانوں اور جملہ انسانوں کے راہنمائی کے لیے کافی ووافی ہے۔ سو یہ کتاب عزیز ہے جس کو حضرت حق جل مجدہ نے (تبیانا لکل شی) یعنی " راہ حق و ہدایت میں ہر چیز کے لیے تبیان بناکر بھیجا ہے تاکہ راہ حق و ہدایت سے متعلق ہر ضرورت کی تکمیل کا سامان ہوسکے۔ فالحمد للہ جل وعلا۔ 16۔ ہدایت خداوندی کی عظمت و اہمیت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بہت سے راستے ٹیڑھے بھی ہیں۔ جو اسلام کے خلاف متقضائے حق سے متصادم اور عقیدہ توحید سے منحرف ہیں۔ والعیاذ باللہ۔ جیسے یہودیت، نصرانیت اور مجوسیت وغیرہ وغیرہ۔ ایسے میں ہدایت خداوندی کی عظمت و اہمیت واضح ہوجاتی ہے کہ اس کے بغیر انسان راہ حق سے سرفراز نہیں ہوسکتا۔ سو حق و ہدایت کی راہ ایک اور صرف ایک ہے۔ یعنی اسلام جو کہ دین فطرت ہے۔ اور اسی کو یکسو ہوکر اپنانے اور اختیار کرنے کی تعلم و تلقین فرمائی گئی ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (فاقم وجھک للدین حنیفا فطرۃ اللہ التی فطرالناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ ذالک الدین القیم ولکن اکثر الناس لایعلمون) (الروم : 29) ۔ اسی کو رب نے وہ صراط مستقیم قرار دیا جو کہ اس تک پہنچنے اور پہنچانے والا ہے ارشاد ہوتا ہے۔ (قاھذاصراط علی مستقیم) (الحجر : 14) اور اس ایک راہ کے سوا باقی سب راستے ٹیڑھے ہیں جو اس کی راہ سے ہٹانے والے ہیں۔ اس لئے اسی ایک راستے کو اپنانے اور پیروی کا حکم دیا گیا۔ ارشاد ہوتا ہے۔ (وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ) (الانعام : 153) سو راہ حق اور صراط مستقیم ایک اور صرف ایک ہے جو کہ فطرت پر مبنی اور توحید و وحدانیت خداوندی کا راستہ ہے۔ جس کو حضرت حق جل مجدہ نے اپنے بندوں کے لیے خود بیان فرمایا ہے۔ اور اسی پر چل کر بندہ اپنے رب تک پہنچ سکتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (ان ربی علی صراط مستقیم) یعنی " بیشک میرے رب تک رسائی سیدھی راہ پر چل کر ہی نصیب ہوسکتی ہے "۔ 17۔ جبری ہدایت نہ مفید ہے نہ مطلوب : کیونکہ ابتلاء و آزمائش اور ثواب و عذاب کا دارومدار اسی ہدایت اور ایمان پر ہے جو اپنے ارادہ واختیار سے ہو ورنہ جبری ہدایت اگر مطلوب ہو تو اس کے لیے محض ارادہ اور ایک اشارہ ہی کافی تھا، چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اگر اللہ چاہتا ہے تو (جبرا) تم سب ہی کو راہ ہدایت پر لے آتا، لیکن یہ چونکہ مقتضائے امتحان واختیار کے خلاف ہے اس لئے اس کی حکمت بالغہ نے ایسے چاہاجل جلالہ۔ ورنہ اس کے لیے تو اس قادر مطلق سبحانہ وتعالیٰ ۔ کی مشیت اور اس کے ارادے کی دیر تھی اور بس۔ جونہی اس کا ارادہ ہوتاسب ایمان لاچکے ہوتے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے۔ (فلوشآء لھدکم اجمعین) (الانعام : 150) نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (ولوشآء ربک لامن فی الارض کلہم جمیعا) الایۃ (یونس : 99) نیز فرمایا گیا (ان نشا ننزل علیہم من السمآء ایۃ فظلت اعناقہم لھا خاضعین) (الشعراء : 4) وغیرہ وغیرہ لیکن ایسا جبری اور غیر اختیاری ایمان تو سرے سے مطلوب ہی نہیں۔ مطلوب وہ ایمان ہے جو انسان اپنے قصد و ارادہ اور اختیار سے لائے۔ جو کہ مقتضائے حکمت اور تقاضائے اختیار و ابتلاء ہے اور وہی مدار ہے اجروثواب کا۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، علی مایحب ویرید۔
Top