Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 20
كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ١ؕ وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا
كُلًّا : ہر ایک نُّمِدُّ : ہم دیتے ہیں هٰٓؤُلَآءِ : ان کو بھی وَهٰٓؤُلَآءِ : اور ان کو بھی مِنْ : سے عَطَآءِ : بخشش رَبِّكَ : تیرا رب وَ : اور مَا كَانَ : نہیں ہے عَطَآءُ : بخشش رَبِّكَ : تیرا رب مَحْظُوْرًا : روکی جانے والی
(رہی دنیا تو اس میں) ہم (اپنی پروردگاری اور بخشش سے) ہر فریق کو مدد دئیے جا رہے ہیں، ان کو بھی اور ان کو بھی، اور تمہارے رب کی بخشش (ان دونوں میں سے کسی فریق پر بھی) بند نہیں،
42۔ اللہ تعالیٰ کی دنیاوی عطاو بخشش سب کے لئے عام :۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ” تمہارے رب کی دنیاوی عطاء وبخشش سب ہی کیلئے ہے “۔ یعنی ایمان والوں کو بھی اور کفر والوں کو بھی۔ فرماں برداروں کو بھی اور نافرمانوں کو بھی، اطاعت شعاروں کو بھی اور باغیوں اور سرکشوں کو بھی۔ کہ دنیا دے اس دار فانی کے دارالامتحان ہونے کا تقاضا یہی ہے کہ دنیا کے اس دار غرور میں دنیائے فانی کے متاع قلیل کا حصہ ہر کسی کو اس کی محنت و مشقت کے مطابق ملتا رہے۔ کہ وہ رب غفور و رحیم سب ہی کا خالق ومالک اور رب العالمین ہے۔ اور اس کی ربوبیت عامہ کا تقاضہ یہی ہے کہ ضروریات زندگی مومن و کافر سب ہی کو ملتی اور برابر ملتی رہیں۔ سو زمین کا فرش اور آسمان کی چھت سب کیلئے۔ ہوا و پانی سب کیلئے۔ سورج کی گرمی اور چاند کی روشنی سب ہی کیلئے ہے۔ تاکہ اس طرح ہر کوئی اپنی ضروریات زندگی سے فائدہ اٹھائے اور اس پر حجت قائم ہوجائے۔ سو دنیاوی نعمتوں کا اصل دارومدار چونکہ انعام و اکرام پر نہیں بلکہ اس کی اصل بنیاد ابتلاء و آزمائش پر ہے۔ اس لیے یہ مومن و کافر سب کیلئے یکساں اور ایک برابر ہے۔ جبکہ دارآخرت کی نعمتوں کی اصل اساس و بنیاد انعام و اکرام پر ہے۔ اس لیے وہ اہل ایمان وتقوی ہی کیلئے ہونگی۔ جیسا دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ (قل ھی للذین امنو فی الحیوۃ الدنیاخالصۃ یوم القیامۃ) ۔ (الاعراف : 32) ۔ اللہ محض اپنے فضل وکرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ 43۔ رب کی عطا و بخشش کسی کیلئے بند نہیں :۔ سوارشادفرما گیا ” تمہارے رب کی عطاء و بخشش کسی پر بھی بند نہیں “ چناچہ یہاں پر کافر بھی حصہ پارہا ہے اور مومن بھی۔ عاصی بھی بہرہ ور ہو رہا ہے اور مطیع بھی۔ کیونکہ ایک تو یہ دنیا حقیقت اور حیثیت ہی نہیں۔ اور جب اس دنیا کی ساری دولت کی حیثیت بھی آخرت کے مقابلے میں پرکاہ کے برابر بھی نہیں تو پھر اس میں سے اگر کچھ کروڑ یا کچھ ارب یا کچھ کھرب بھی کسی کو مل گئے تو بھی اسے کیا ملا ؟ اور اس کی آخرت کے مقابلے میں کیا حیثیت ہوسکتی ہے۔ پھر یہ فیصلہ آخرت کے اس جہاں میں ہوگا جہاں آخرت سے منہ موڑ کر زندگی بسر کرنے والے ایسے طالبان دنیا کیلئے عذاب جحیم اور ہمیشہ کا خسارہ ہوگا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور طالبان آخرت کیلئے جنت کی نعیم مقیم اور وہاں کی حقیقی اور ابدی سعادت سے سرفرازی اور بہرمندی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی عطاء تو کسی کیلئے بند نہیں سب کے لئے عام ہے لیکن آگے لوگ ہر دو قسم پر ہیں۔ ایک وہ جو صرف دنیا ہی چاہتے ہیں اور بس۔ سو ایسوں کے دنیا میں سے جو کچھ ملنا ہوا مل جائے گا لیکن آخرت میں ان کیلئے دوزخ کی آتش سوزاں کے سوا کچھ نہیں انکے اپنے ارادہ واختیار کی بناء پر۔ اور دوسری قسم ان خوش نصیب لوگوں کی ہے جو آخرت کی سچی اور حقیقی طلب اور تڑپ رکھتے ہیں۔ سو ایسوں کو بقدر کفایت دنیا بھی ملے گی اور پھر ان کو آخرت کے اس ابدی جہاں اور وہاں کی حقیقی زندگی میں سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی بھی نصیب ہوگی۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top