Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 21
اُنْظُرْ كَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ؕ وَ لَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّ اَكْبَرُ تَفْضِیْلًا
اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کس طرح فَضَّلْنَا : ہم نے فضیلت دی بَعْضَهُمْ : ان کے بعض (ایک) عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض (دوسرا) وَلَلْاٰخِرَةُ : اور البتہ آخرت اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ : سب سے بڑے درجے وَّاَكْبَرُ : اور سب سے برتر تَفْضِيْلًا : فضیلت میں
دیکھو (دنیا میں) ہم نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر کس طرح فضیلت دے رکھی ہے، اور آخرت تو یقیناً اپنے درجات کے اعتبار سے بھی اس سے کہیں بڑی ہے، اور اس کی فضیلت بھی اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہوگی،2
44۔ دنیا میں لوگوں کیلئے ایک دوسرے پر فضیلت و فوقیت :۔ سو دنیا میں بعض کو بعض پر فوقیت و فضیلت بخشی گئی اور اس میں عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت ہیں۔ کوئی غریب تر۔ اور کوئی امر۔ کوئی امیر تر۔ کوئی محروم۔ اور کوئی محروم تر وغیرہ وغیرہ۔ سو انسان قادر مطلق اور مختیار کل نہیں کہ جو چاہے کرے۔ ہم جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے۔ اور جیسے چاہتے ہیں ویسے ہی ہوتا ہے۔ اور ہماری یہ مشیت نہایت حکمت اور رحمت و عنایت پر مبنی ہوتی ہے۔ سو اس تفاوت درجات سے تمہارے درمیان باہمی روابط و تعاون کی طرح طرح کی صورتیں نکلتی ہیں۔ اور تم ایک دوسرے کے کام آتے اور کام لیتے ہو جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ (ورفعنا بعضہم فوق بعض درجات الیتخذ بعضہم بعضاسخریا) ۔ (الزخروف : 32) نیز اس میں تمہارے لیے یہ درس عظیم بھی ہے کہ تم خود مختیار نہیں ہو بلکہ تم میں سے ہر کوئی ان حدود وقیود میں جکڑا اور بندھا ہوا ہے جس میں ہم نے اس کو پابند کیا ہے۔ پس تم میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اپنی ان خلقی حدود اور فطری قیود کو بدل سکے اور ان کے حصار سے نکل سکے۔ نہ کوئی اپنے پیدائشی رنگ کو بدل سکتا ہے نہ اپنے قد کو چھوٹا یا بڑا کرسکتا ہے نہ اپنے اعضاء وجوارح کو گھٹایا بڑھا سکتا ہے اور نہ ہی اپنی عمر اور اس کے مختلف مراحل میں سے کسی مرحلے کی مدت کو کم یا زیادہ کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو پھر کتنے احمق ہیں وہ لوگ جن کے دماغوں میں یہ ہوا بھر جاتی ہے کہ ہم سب کچھ کرسکتے ہیں اور اس طرح وہ راہ حق و ہدایت سے بھٹک کر کہیں سے کہیں جاپہنچتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 45۔ اور آخرت کے درجات تو یقینا اس سے کہیں بڑھ کر ہوں گے :۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ مؤکد کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ آخرت کے درجات اس سے کہیں بڑھ کر مختلف ہوں گے کہ اس کی نعمتیں حقیقی بھی ہیں اور دائمی وابدی بھی۔ اور وہاں پر حضرت حق۔ جل مجدہ۔ نے اپنے بندوں کے لئے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کس دل پر اس کا گزر ہی ہوا۔ اللہ محض اپنے فضل وکرم سے نصیب فرمائے۔ آمین۔ پس اصل چیز آخرت کے ان درجات و مراتب ہی کو اپنے پیش نظر رکھنا اور انہی کے حصول کیلئے فکر و کوشش کرنا ہے نہ کہ دنیائے فانی کے متاع فانی اور حطام زائل کیلئے۔ سو یہی عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا تقاضا ہے اور یہی دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کا مفاد و مدعا ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی مایحب ویرید۔
Top