Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 100
وَّ عَرَضْنَا جَهَنَّمَ یَوْمَئِذٍ لِّلْكٰفِرِیْنَ عَرْضَاۙ
وَّعَرَضْنَا : اور ہم سامنے کردینگے جَهَنَّمَ : جہنم يَوْمَئِذٍ : اس دن لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے عَرْضَۨا : بالکل سامنے
اور پیش کردیں گے ہم اس روز دوزخ کو ان کافروں کے روبرو2
145 دوزخ کی پیشی کافروں کے لیے : سو ارشاد فرمایا گیا " اور پیش کردیں گے ہم اس روز دوزخ کو ان کافروں کے سامنے "۔ یعنی { عَرَضْنَا } کا ماضی کا صیغہ یہاں پر مضارع کے معنیٰ میں ہے۔ اور یہ بلاغت کا ایک معروف اسلوب ہے کہ مستقبل میں ہونے والی کسی شیء کو ماضی کے صیغے سے تعبیر کیا جائے۔ چناچہ یہاں پر دوزخ کی اس عرض اور پیشی کو " نعرض " وغیرہ جیسے مضارع کے کسی صیغے سے تعبیر کرنے کی بجائے " عرضنا " ماضی کے صیغے سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اس کو بلاغت میں تحقق وقوع سے تعبیر کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ حقیقت اس قدر قطعی اور ایسی یقینی ہے کہ گویا کہ یہ واقع ہوگئی ہے۔ اور یہ اسلوب دنیا بھر کی ہر زندہ زبان میں پایا جاتا ہے۔ خود ہماری زبان اور ہمارے محاورے میں بھی اس کے نمونے جابجا ملتے ہیں۔ چناچہ ہمارے یہاں جب کوئی کسی سے کہتا ہے کہ اگلے مہینے میرا آدمی آپ کے پاس فلاں کام کیلئے آئے گا تو کیا آپ وہ کام کردیں گے ؟ وہ کہتا ہے ہاں کردونگا۔ آپ مزید اطمینان اور تاکید کیلئے اس سے پھر پوچھتے ہیں کیا آپ میرا کام کردیں گے ؟ میں مطمئن ہوجاؤں ؟ تو اس کے جواب میں وہ کہتا ہے کہ ہاں بھئی آپ مطمئن ہوجائیں آپ کا کام ہوگیا۔ سو ہو کدھر ہوگیا ؟ وہ تو اگلے مہینے میں کرنا ہے۔ سو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ مطمئن ہوجائیں اور یقین کرلیں کہ یہ کام گویا کہ ابھی سے ہوگیا ہے۔ سو اس میں بلاغت کا یہی اسلوب کارفرما ہے۔ اور یہ تحقق وقوع کی علامت ہے۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ " اس روز دوزخ کو کافروں پر پیش کیا جائے گا " تاکہ وہ اس میں داخل ہونے سے پہلے اس کو دیکھ لیں اور یہ یقین کرلیں کہ انہوں نے اس میں داخل ہونا ہے۔ اور ان کو یقین ہوجائے کہ یہی وہ جہنم ہے جس کو مجرم لوگ جھٹلایا کرتے تھے ۔ { ہٰذِہ جَہَنَّمُ الَّتِیْ یُکَذِّبُ بِہَا الْمُجْرِمُوْنَ } ۔ (الرحمن :43) ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 146 دوزخ اصل میں کافروں ہی کیلئے ہوگی : سو اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ اصل میں کافروں ہی کے لئے تیار کی گئی ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ نار دوزخ کے بارے میں صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ } ۔ یعنی " اس کو تیار کیا گیا ہے کافروں کیلئے "۔ اس لئے یہاں کافروں کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ ورنہ دیکھنے کو تو وہ ہر کسی کو سامنے نظر آئے گی۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰی } ۔ (النازعات : 36) ۔ گناہگار مسلمانوں کو اس میں ان کے گناہوں کی بناء پر عارضی طور پر ڈالا جائے گا اور پھر سزا بھگتنے اور گناہوں کی میل سے پاک صاف ہوجانے کے بعد ان کو وہاں سے نکال دیا جائے گا۔ جبکہ کافر اس میں ہمیشہ پڑے جلتے رہیں گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ عقل اور دل کے جن اندھوں کو آج وہ جہنم نظر نہیں آرہی اور جس کو آج یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہو رہے اس روز ان کو ہم انکے سامنے کھڑا کردیں گے کہ لو یہ ہے وہ چیز جس کو تم لوگ عقل کی آنکھ سے دنیا میں نہیں دیکھ سکے تھے۔ اب اس کو تجربہ کی آنکھ سے دیکھ لو۔ سو یہ کس قدر کرم ہے اس کتاب حکیم کا کہ اس نے غیب کے ان عظیم الشان حقائق کو دنیا میں اس قدر واشگاف الفاظ میں بیان فرما دیا تاکہ جس نے بچنا ہو بچ جائے۔ قبل اس سے کہ فرصت حیات اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور اس کو ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہونا پڑے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top