Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 78
قَالَ هٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِكَ١ۚ سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِیْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا
قَالَ : اس نے کہا ھٰذَا : یہ فِرَاقُ : جدائی بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنِكَ : اور تمہارے درمیان سَاُنَبِّئُكَ : اب تمہیں بتائے دیتا ہوں بِتَاْوِيْلِ : تعبیر مَا : جو لَمْ تَسْتَطِعْ : تم نہ کرسکے عَّلَيْهِ : اس پر صَبْرًا : صبر
اس پر اس شخص نے کہا کہ یہ جدائی کا وقت ہے میرے اور آپ کے درمیان اب میں آپ کو حقیقت بتائے دیتا ہوں ان سب چیزوں کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا۔4
122 حضرت موسیٰ و خضر کی جدائی اور مسئلہ حیات خضر : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اس سے حضرت موسیٰ اور خضر کی جدائی ہوگئی۔ سو حضرت خضر نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ " یہ ہمارے درمیان جدائی کا وقت ہے "۔ یعنی جدائی کے جس وقت کے بارے میں ہمارے درمیان بات طے ہوگئی تھی وہ اب آن پہنچا ہے۔ اس لئے اب ہم ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ حضرت خضر کی زندگی کے بارے میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ بہت سے اہل علم اور صوفیاء کا کہنا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ لیکن محققین کا قول اس کے خلاف ہے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ حضرت خضر بھی عام لوگوں کی طرح اپنے وقت پر وفات پاچکے ہیں۔ کیونکہ ان کے زندہ رہنے کا قول سورة آل عمران کی آیت نمبر 81 یعنی ۔ { وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاق النَّبِیِّیْنَ } ۔ کے مقتضا کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس ارشاد ربانی کے مطابق حضرت خضر کے لئے اگر وہ زندہ ہوتے یہ ضروری تھا کہ وہ حضو ۔ ر ﷺ ۔ کی بعثت کے بعد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ پر ایمان لاتے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے۔ اور آپ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی بات ثابت نہیں۔ نیز یہ قول اس مشہور حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں حضور نے فرمایا تھا " لَا یَبْقٰی عَلٰی رَاْسِ مِأَۃِ سَنَۃٍ مِمَّنْ ھُوَ عَلٰی ظَہْرِ الاَرْض مِنْ لیلتہ تلک " (ابن کثیر وغیرہ) ۔ اوکما قال (علیہ السلام) ۔ یعنی آج روئے زمین پر جو لوگ موجود ہیں ایک صدی گزرنے پر ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ چناچہ روایات میں وارد ہے کہ جب حضرت امام بخاری ۔ (رح) ۔ سے کسی نے حضرت الیاس اور خضر۔ (علیہما السلام) ۔ کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ زندہ ہیں ؟ تو آپ (رح) نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ وہ کس طرح زندہ ہوسکتے ہیں جبکہ آنحضرت ﷺ نے اپنی وفات سے کچھ ہی قبل یہ ارشاد فرمایا تھا۔ پھر آپ نے یہی حدیث پیش فرمائی۔ نیز قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ۔ { وَمَا جَعَلَنا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَإِنْ مِّتَّ فَہُمْ الْخٰلِدُوْنَ } (الانبیائ : 34) یعنی " آپ سے قبل ۔ اے پیغمبر !۔ ہم نے کسی بھی انسان کو خلود و دوام کی زندگی نہیں بخشی " سو حیات خضر کا مسئلہ اگرچہ اختلافی ہے اور دونوں قول اہل علم کے یہاں پائے جاتے ہیں مگر محققین کا قول یہ ہے کہ وہ اب زندہ نہیں۔ بلکہ عام انسانوں کی طرح وہ بھی اپنے وقت پر انتقال فرما گئے۔ اور یہی قول ہمارے نزدیک بھی راحج ہے۔ اور جن احادیث و روایات میں ان کی زندگی و بقا کا ذکر و ثبوت ملتا ہے وہ ضعیف الاسناد اور کمزور ہیں۔ جیسا کہ محقق ابن کثیر۔ (رح) ۔ وغیرہ حضرات نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس بارے فرمایا کہ ایسی روایات میں کوئی بھی صحیح نہیں۔ نیز آپ (رح) نے تاریخ البدایہ والنہایہ میں ایسی تمام احادیث و روایات کو جمع کرنے کے بعد کہا کہ ان میں جو احادیث و روایات مرفوعاً بیان کی جاتی ہیں وہ سب نہایت ضعیف ہیں۔ اور اس حد تک کہ وہ سند نہیں بن سکتیں اور ان سے استدلال صحیح نہیں۔ اور علامہ ابو الفرج ابن الجوزی ۔ (رح) ۔ نے تو اپنی کتاب " عجلۃ المنتظر فی شرح حالۃ الخضر " میں ایسی تمام روایات کے بارے میں فرمایا کہ یہ تمام موضوع اور من گھڑت ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور آپ (رح) نے علم جرح و تعدیل کے اصول کے مطابق ان تمام روایات اور ان کی اسانید کی پورے علمی انداز میں چھانٹ پھٹک کی۔ رہ گئیں صوفیائے کرام کی حکایات و روایات اور ان کے قصص و مکاشفات تو وہ شرعی طور پر سند نہیں بن سکتیں ۔ والعلم عند اللہ سبحانہ وتعالی ۔ (روح، قرطبی، ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، جواہر القرآن، اضواء البیان وغیرہ وغیرہ) ۔ والحمد للہ تبارک وتعالی -
Top