Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 82
وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا١ۚ فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا١ۖۗ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ١ۚ وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْ١ؕ ذٰلِكَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا٢ؕ۠   ۧ
وَاَمَّا : اور رہی الْجِدَارُ : دیوار فَكَانَ : سو وہ تھی لِغُلٰمَيْنِ : دو بچوں کی يَتِيْمَيْنِ : دو یتیم فِي الْمَدِيْنَةِ : شہر میں۔ کے وَكَانَ : اور تھا تَحْتَهٗ : اس کے نیچے كَنْزٌ : خزانہ لَّهُمَا : ان دونوں کے لیے وَكَانَ : اور تھا اَبُوْهُمَا : ان کا باپ صَالِحًا : نیک فَاَرَادَ : سو چاہا رَبُّكَ : تمہارا رب اَنْ يَّبْلُغَآ : کہ وہ پہنچیں اَشُدَّهُمَا : اپنی جوانی وَيَسْتَخْرِجَا : اور وہ دونوں نکالیں كَنْزَهُمَا : اپنا خزانہ رَحْمَةً : مہربانی مِّنْ رَّبِّكَ : سے تمہارا رب وَمَا فَعَلْتُهٗ : اور یہ میں نے نہیں کیا عَنْ : سے اَمْرِيْ : اپنا حکم (مرضی) ذٰلِكَ : یہ تَاْوِيْلُ : تعبیر (حقیقت) مَا : جو لَمْ تَسْطِعْ : تم نہ کرسکے عَّلَيْهِ : اس پر صَبْرًا : صبر
رہی وہ دیوار تو اس کا معاملہ بھی یہ تھا کہ وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اس کے نیچے ان کا ایک خزانہ مدفون تھا، اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا اس لیے تمہارے رب نے محض اپنی مہربانی سے چاہا کہ وہ دونوں جوان ہو کر اپنی قوتوں کو پہنچ جائیں اور اپنا دفینہ خود نکال لیں1 اور یہ سب کچھ میں نے اپنی رائے سے نہیں کیا، سو یہ ہے حقیقت ان سب باتوں کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا
125 دیوار کی اصلاح و مرمت کی حکمت کا بیان : سو اس بارے حضرت خضر نے کہا کہ " وہ دیوار اس شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی۔ اور اس کے نیچے ان دونوں کا ایک خزانہ مدفون تھا۔ اور ان دونوں کا باپ ایک نیک شخص تھا "۔ ظاہر اور متبادر تو اس سے یہی ہے کہ اس باپ سے مراد ان کا حقیقی باپ تھا۔ اور اسی نے یہ خزانہ دفن کیا تھا۔ جیسا کہ بعض علماء نے کہا۔ مگر بعض روایات کے مطابق یہ شخص ان کا دور کا باپ اور ان کا جدِّ امجد تھا۔ جس کی ساتویں پشت میں یہ لڑکے پیدا ہوئے تھے۔ اور بعض میں دسویں پشت کہا گیا ہے۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کی نیکی اور ان کی صالحیت ان کی اولاد کے کام آتی ہے اگرچہ اتنی دورجا کر ہو۔ (ابن کثیر، فتح القدیر، کبیر اور جامع البیان وغیرہ) ۔ اور اسی سے مفہوم مخالف کے طور پر یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ ماں باپ کے برے اعمال کے نتائج بھی بعض اوقات بلکہ بسا اوقات ان کی اولاد کو بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت امام شافعی (رح) نے ایک موقع پر فرمایا کہ زنا ایک قرض ہے جو آدمی کو یا پھر آگے اس کی اولاد کو چکانا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور یہ بھی ایک طبعی اور منطقی امر ہے کہ انسان اچھائی یا برائی کا جو بھی کوئی عمل کرتا ہے وہ دراصل اپنے عمل سے ایک پودا لگاتا ہے۔ خیر کا پودا خیر ہوگا اور شر کا پودا شر۔ اور پودے آگے پھل دینے کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ کوئی پودا دو تین ماہ میں پھل دیتا ہے، کوئی پانچ چھ ماہ میں، کوئی سال دو سال میں اور کوئی پچاس ساٹھ سالوں میں وغیرہ وغیرہ۔ پس انسان اپنے عمل کے پودے کا پھل کبھی خود کھائے گا، کبھی اس کی اولاد کھائے گی اور کبھی اس کی آگے والی نسلیں۔ سو نیکی کا نتیجہ و انجام بہرحال نیک ہے اور برائی کا برا ۔ والعیاذ باللہ ۔ 126 سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں : سو حضرت خضر نے ان رازہائے سربستہ سے پردہ اٹھانے کے بعد صاف اور صریح طور پر کہا کہ " یہ سب کچھ میں نے اپنی طرف سے نہیں کیا "۔ بلکہ اپنے خالق ومالک کے حکم و ارشاد کے مطابق ہی کیا ہے۔ کیونکہ محض اپنی رائے سے کسی کے جان و مال میں ہاتھ ڈالنا جائز نہیں ہوسکتا۔ پس نہ میں عالم غیب ہوں اور نہ مختار کل۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کے حکم کا پابند ہوں۔ اس کی طرف سے جب اور جو حکم ملتا ہے میں اسی کی پابندی کرتا ہوں اور بس۔ پس اس سے اہل بدعت اور ان کے بڑے تحریف پسندوں کی خود ساختہ منطق کی ساری عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ زیغ و ضلال کی ہر شکل سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ بہرکیف اس سے خضر نے اس حقیقت کو واضح کردیا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اسی کے حکم وارشاد سے تھا۔ میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کیا۔ اور پھر حضرت موسیٰ سے کہا کہ یہ حقیقت ہے ان باتوں کی جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔ صحیح بخاری میں ہمام عن ابی ہریرۃ کی سند سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خضر کو خضر اس لیے کہتے ہیں کہ وہ خشک زمین پر بیٹھے تو وہ سبزے سے لہلہا اٹھے (ابن کثیر وغیرہ ) ۔ بہرکیف حضرت خضر نے تصریح کردی کہ ان میں سے کوئی بھی کام میں نے محض اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کے حکم وارشاد سے تھا کہ سب کچھ اسی وحدہ لا شریک کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top