Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور پوچھتے ہیں یہ لوگ آپ سے (اے پیغمبر) ذوالقرنین کے بارے میں تو ان سے کہو کہ میں تم کو سنائے دیتا ہوں اس کا کچھ حال،
127 قصہ ذوالقرنین کا کچھ ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ میں اس کا کچھ حال تم لوگوں کو سنائے دیتا ہوں۔ نہ کہ سب کا سب اور پورا قصہ۔ کیونکہ قرآن حکیم کوئی قصوں کہانیوں یا تاریخ و جغرافیہ کی کتاب نہیں کہ پورا قصہ بیان کرے۔ بلکہ یہ کتاب عظیم کتاب ہدایت ہے۔ جس کا اصل مقصد بندوں کو راہ راست سے نوازنا اور ان کو اپنے خالق ومالک سے ملانا ہے۔ اس لئے اس میں قصے کا صرف وہی حصہ بیان کیا جاتا ہے جو کہ اس کے موضوع سے مطابقت رکھتا ہو۔ اور اس اعتبار سے ضروری و مفید ہو۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہنا چاہیئے کہ اس ذوالقرنین سے مراد یونان کا وہ سکندر نہیں جس کو سکندر مقدونی اور سکندر رومی بھی کہتے ہیں۔ اور جس نے فارس کو فتح کرنے کے بعد ہندوستان پر بھی حملہ کیا تھا۔ اور وہ دارا کو قتل کر کے اس کے ملک پر قابض ہوگیا تھا۔ جس کا گزر تین سو سال قبل مسیح میں ہوا تھا اور اس نے سکندریہ کا شہر آباد کیا تھا۔ سو قرآن حکیم میں مذکور ذوالقرنین سے مراد یہ سکندر مقدونی نہیں۔ جیسا کہ کئی اہل علم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ سکندر مشرک اور آتش پرست انسان تھا۔ جبکہ قرآن حکیم میں مذکور سکندر ایک نیک شخص اور صالح مومن تھا۔ بلکہ بعض نے اس کو نبی بھی قرار دیا ہے۔ لہذا اس سے مراد وہ دوسرا سکندر ذوالقرنین ہے۔ جو کہ سکندر مقدونی سے بھی کوئی دو ہزار سال قبل حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) کے زمانے میں گزرا۔ جس نے روایات کے مطابق حضرت ابراہیم کے ساتھ بیت اللہ کا طواف بھی کیا تھا۔ ابن کثیر نے اپنی تفسیر اور اپنی تاریخ البدایہ والنہایہ میں اس بات کو بڑے پُر وثوق طریقے سے بیان فرمایا ہے۔ قرطبی (رح) نے بھی سہیلی سے یہی نقل کیا ہے۔ سو اخبار و روایات کی روشنی میں ظاہر یہی ہے کہ ذوالقرنین دو تھے۔ ایک حضرت ابراہیم کے زمانے میں ۔ اور وہی یہاں مراد ہے ۔ اور دوسرا حضرت عیسیٰ کے قریب کے زمانے میں۔ (کبیر، قرطبی، جامع البیان، فتح القدیر اور معارف القرآن وغیرہ) ۔
Top