Tafseer-e-Madani - Maryam : 71
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا١ۚ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْكُمْ : تم میں سے اِلَّا : مگر وَارِدُهَا : یہاں سے گزرنا ہوگا كَانَ : ہے عَلٰي : پر رَبِّكَ : تمہارا رب حَتْمًا : لازم مَّقْضِيًّا : مقرر کیا ہوا
اور تم میں سے کوئی بھی نہیں جس کا دوزخ پر سے گزر نہ ہو، تمہارے رب کے ذمے ایک لازم اور طے شدہ امر ہے
79 ہر کسی کو دوزخ کے اوپر سے گزرنا ہوگا : سو ارشاد فرمایا گیا " اور تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کا دوزخ پر سے گزرنا ہو " کہ اہل جنت کو بھی اس کے اوپر سے گزرنا پڑے گا۔ کیونکہ پل صراط کو دوزخ کے اوپر قائم کیا گیا ہوگا مگر مومن صادق کے لئے وہ آگ ٹھنڈی ہوجائے گی۔ اور وہ اس کیلئے اسی طرح برد وسلام بن جائے گی جس طرح کہ نمرود کی آگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے بن گئی تھی۔ اور اہل ایمان اس سے بحفاظت پار ہوجائیں گے اور ان کے گزرنے کی رفتار بھی ان کے ایمان و یقین کی قوت و ضعف اور اعمال کے درجات کی بناء پر مختلف ہوگی۔ کوئی بجلی کی چمک کی طرح گزر جائے گا۔ کوئی تیز ہوا کی طرح۔ کوئی تیز گھوڑے کی طرح وغیرہ وغیرہ۔ جیسا کہ احادیث میں تفصیل سے وارد ہے۔ اور کفر و باطل والے اس کے اوپر سے گر کر واصل بجہنم ہوجائیں گے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو لفظ " ورود " کے بارے میں حضرات اہل علم کا اختلاف ہے۔ چناچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ " ورود " کا لفظ یہاں پر " دخول " کے معنیٰ میں ہے۔ سو ہر کسی کو خواہ وہ نیک ہو یا بد اس میں داخل ہونا ہوگا۔ پھر مومن کے لیے تو وہ برد اور سلام بن جائے گی جیسا کہ حضرت ابراہیم کے لیے بن گئی تھی۔ اور حضرت ابن مسعود اور قتادہ وغیرہ کے نزدیک " ورود " کا لفظ یہاں پر " مرور و اجتیاز " کے معنیٰ میں ہے۔ " الورود المرور علی الصراط " ( مدارک وغیرہ ) ۔ اور یہی قول راجح لگتا ہے۔ جیسا کہ ابھی اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اور حدیث میں وارد ہے کہ دوزخ کی آگ مومن سے کہے گی کہ تو جلدی جلدی گزر جا کہ تیرے نور نے میرے شعلوں کو ٹھنڈا کردیا ہے " جُزْ یَا مومن فان نورک اطفا لہبتی " ( المدارک، الصفوۃ، المراغی، ابن کثیر اور معارف وغیرہ ) ۔
Top