Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 106
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَا١ؕ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
مَا نَنْسَخْ : جو ہم منسوخ کرتے ہیں مِنْ آيَةٍ : کوئی آیت اَوْ نُنْسِهَا : یا اسے بھلا دیتے ہیں نَأْتِ : لے آتے ہیں بِخَيْرٍ : بہتر مِنْهَا : اس سے اَوْ مِثْلِهَا : یا اس جیسا اَلَمْ : کیا نہیں تَعْلَمْ : جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ عَلٰى : پر كُلِّ شَیْءٍ : ہر شے قَدِیْرٌ : قادر
جو بھی کوئی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں، یا اسے (ذہنوں سے) بھلا دیتے ہیں، تو ہم لے آتے ہیں اس سے کوئی بہتر آیت، یا اسی جیسی، بیشک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے،2
296 " نُنْسِہٰا " کا معنی و مطلب ؟ : بھلا دینے کا یہ معنیٰ اس وقت ہوگا جبکہ اس لفظ کو " نسیان " سے ماخوذ مانا جائے۔ اور دوسرا احتمال اس میں یہ بھی ہے کہ یہ لفظ " نسا " سے ماخوذ ہو جس کے معنیٰ موخر کرنے کے ہوتے ہیں۔ تو اس صورت میں اس کے معنیٰ ہوں گے کہ ہم اس کو موخر کردیتے ہیں۔ اب اس کے مطلب اور معنیٰ و مراد میں آگے کئی احتمال ہیں۔ نمبر ایک یہ کو لوح محفوظ سے اس کا نزول مؤخر کردیتے ہیں۔ نمبر دو یہ کہ تورات کے احکام میں سے جس کے نسخ کو موخر کر کے اسے قرآن حکیم میں مستقل طور پر محفوظ کردیتے ہیں۔ نمبر تین یہ کہ قرآن حکیم کے احکام میں سے جس حکم کو نسخ سے محفوظ رکھ کر اسے ہم باقی رکھ دیتے ہیں وغیرہ۔ (محاسن التاویل المعروف تفسیر القاسمی (رح) ) ۔ بہرکیف نسخ سے متعلق اس اصولی اور بنیادی ارشاد سے دراصل یہود و مشرکین وغیرہ کے ایک مشہور و معروف اعتراض اور مغالطے کا جواب دیا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کا اعتراض و مغالطہ اور ان کا کہنا یہ تھا کہ جب پہلی شریعتیں اور پہلی کتابیں بھی آسمانی اور الہامی تھیں، تو پھر ان کو منسوخ کر کے مسلمانوں کی یہ نئی شریعت اور نئی کتاب اتارنے کی آخر ضرورت ہی کیا تھی ؟ نیز خود اسلام کے اندر کے جو احکام منسوخ کردیئے جاتے تھے، ان پر بھی کچھ لوگ ایسے ہی اعتراض کرتے تھے کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کو ۔ نعوذ باللہ ۔ پہلے معلوم نہیں تھا ؟ جو بعد میں ایسے احکام کو منسوخ کردیا ؟ تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ نسخ کا معاملہ اس طرح نہیں جس طرح تم لوگوں نے اپنی کج فطرتی، اور بدنیتی سے سمجھا ہے، بلکہ یہ تو اللہ پاک کی بےپایاں حکمتوں کا مظہر اور عقل و منطق کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، کیا تم لوگ اللہ پاک کی بےنہایت قدرت اور آسمان و زمین میں پائی جانے والی اس کی وسیع سلطنت کے اسرار و رموز پر غور نہیں کرتے کہ حقیقت حال تمہارے سامنے واضح ہوجائے۔ اللہ پاک کا علم تو ہمیشہ سے کامل ہے، اس میں کسی تغیر و تبدل کا تو کوئی سوال ہی نہیں، مگر وہ اپنے بندوں کی مصلحت اور بہتری کیلئے اپنے احکام و فرامین میں ترمیم و تنسیخ سے کام لیتا ہے، اور یہ پر حکمت سلسلہ تو اس عالم کون و فساد میں بھی برابر جاری وساری ہے۔ کیا تم لوگ دیکھتے نہیں کہ ایک انسان کی غذا اس کے بچپن سے لیکر آخر تک کیسے بدلتی رہتی ہے ؟ ماں کے پیٹ میں اس کی غذا اسکا خون ہوتا ہے، اور وہ بھی منہ سے نہیں، ناف کے راستے، پھر پیدائش کے بعد ایک عرصہ تک یہ دودھ پیتا ہے، اور وہ بھی ایسا کہ جو ابتداء میں اس کی طبیعت و حالت کے عین مطابق بالکل پتلا اور ہلکا ہوتا ہے، اور پھر رفتہ رفتہ وہ گاڑھا ہوتا چلا جاتا ہے، پھر اس کے بعد یہ بچہ ہلکی ہلکی غذا کھانے لگتا ہے، پھر شدہ شدہ یہ اس دور میں پہنچ جاتا ہے کہ لکڑ ہضم، پتھر ہضم، والا معاملہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح انسانیت جب اپنے عہد طفولیت میں تھی، تو اس کو شریعت کی جو روحانی غذا دی گئی تھی، وہ بالکل ہلکی اور ابتدائی نوعیت کی تھی، پھر شدہ شدہ جب انسانیت شباب و عروج کو پہنچ گئی، تو اس کو قرآن و سنت کی شکل میں وہ آخری اور کامل غذا مرحمت فرما دی گئی جو تا قیام قیامت اس کی ضرورتوں کیلئے کافی و وافی ہے، یا جس طرح ایک ماہر ڈاکٹر و حکیم مریض کی حالت کے مطابق اس کی دوا اور اس کی غذا میں تبدیلی کرتا جاتا ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو شروع میں ان سب دواؤں اور غذاؤں کا علم نہیں تھا ؟ نہیں ایسے نہیں۔ اور ہرگز نہیں، بلکہ وہ دوا و غذا کی یہ تبدیلی مریض کی کیفیت اور اس کی بدلتی ہوئی حالت کے نقطہ نظر سے کرتا ہے۔ سو اسی طرح شریعت کی روحانی دوا و غذا کی تبدیلی بھی انسانوں کی حالت کے مطابق ہوتی ہے۔ اور کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس عالم تکوین میں اس کی یہ حکمت جا بجا کس اور کس طرح کارفرما ہے ؟ یہ دن و رات کا ہمیشہ بدلنا، نہایت باقاعدگی سے ان کا آنا جانا اور چھوٹا بڑا ہونا اور مختلف موسموں کا تغیر و تبدل وغیرہ وغیرہ۔ کیا اس کی اس وسیع ترین قدرت و حکمت کے واضح اور کھلے مظہر نہیں ؟ اور جب ان میں سے کسی بات پر بھی کسی سوال و اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں، تو پھر آخر نسخ کے مسئلہ پر اس طرح کا کوئی اعتراض کیسے اور کیونکر وارد ہوسکتا ہے ؟ سو نسخ حضرت حق جل مجدہ کی قدرت کاملہ اس کی حکمت بالغہ اور رحمت شاملہ کا ایک عظیم الشان مظہر ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ 297 " اَوْمِثْلِہَا " کا فائدہ ؟ : یعنی یا ہم اسی جیسی کوئی آیت لے آتے ہیں، جس کے ذریعے یا تو تم سے کسی حکم کی مشقت اور سختی کو کم کیا گیا ہوگا، اور تمہارے لئے آسانی پیدا کی گئی ہوگی۔ یا اس میں تمہارے لئے اجر وثواب زیادہ ہوگا وغیرہ۔ سو حکم ناسخ کبھی منسوخ سے اس اعتبار سے بہتر ہوتا ہے کہ اس پر عمل کرنا آسان ہوتا ہے اور کبھی اس لحاظ سے کہ اس پر اجر وثواب زیادہ ملتا ہے۔ اور کبھی یہ حکم اسی جیسا اور اس کے برابر ہی ہوتا ہے، جس میں دوسری کئی حکمتیں ہوتی ہیں جن کا احاطہ وہی وحدہ لاشریک کرسکتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ہم جو بھی کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا اس کو بھلا دیتے ہیں، تو اس سے بہتر یا اس جیسی کوئی آیت لے آتے ہیں جس میں تمہارے بھلے کی صورتیں ہوتی ہیں۔
Top