Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 105
مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ لَا الْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
مَا يَوَدُّ : نہیں چاہتے الَّذِیْنَ کَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا مِنْ اَهْلِ الْكِتَابِ : اہل کتاب میں سے وَلَا : اور نہ الْمُشْرِكِیْنَ : مشرکین اَنْ : کہ يُنَزَّلَ : نازل کی جائے عَلَيْكُمْ : تم پر مِنْ خَيْرٍ : کوئی بھلائی مِنْ : سے رَبِّكُمْ : تمہارا رب وَاللّٰہُ : اور اللہ يَخْتَصُّ : خاص کرلیتا ہے بِرَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت سے مَنْ يَشَاءُ : جسے چاہتا ہے وَاللّٰہُ : اور اللہ ذُوْ الْفَضْلِ : فضل والا الْعَظِیْمِ : بڑا
کافر لوگ خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہوں، یا دوسرے کھلے مشرکوں میں سے، وہ ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ تم پر کوئی بھی بھلائی اتاری جائے تمہارے رب کی جانب سے، مگر اللہ (جو کہ مالک مطلق اور مختار کل ہے وہ نوازتا اور) مختص فرماتا ہے اپنی رحمت سے جس کو چاہتا ہے، اور اللہ بڑے ہی (اور لامتناہی) فضل والا ہے،1
293 کفار و مشرکین کی دشمنی اہل ایمان سے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم : سو کفار و مشرکین اپنی عداوت و دشمنی کی وجہ سے اہل ایمان کیلیے کسی بھی خیر کے روادار نہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ " خَیْر " نکرہ ہے جو کہ عموم کے معنیٰ دیتا ہے۔ پھر اس پر بھی تنوین ہے جو کہ تقلیل کا فائدہ دیتی ہے۔ پھر اس پر بھی " مِن " جارہ داخل ہے جو کہ استغراق کے معنی میں استعمال فرمایا گیا ہے۔ سو ان سب باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے ہم نے اس کا ترجمہ " کوئی بھی بھلائی " سے کیا ہے ۔ والحمد للہ ۔ تو جب اہل کتاب کے کافر اور دوسرے کھلے کفار و مشرکین، تم پر اے مسلمانو ! کسی معمولی قسم کی خیر اور بھلائی کے نزول و حصول کے بھی روادار نہیں تو پھر قرآن پاک جیسی اس عظیم الشان اور بےمثال نعمت کا تم پر نزول ان کو کیسے برداشت ہوسکتا ہے ؟ جو کہ سب سے بڑی نعمت ہے اور جو کہ دارین کی سعادت و کامیابی کی ضامن و کفیل ہے۔ اور جس سے اللہ پاک نے تمہیں محض اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے۔ پس ان لوگوں کے حسد وعناد پر تم نہ کوئی تعجب کرو اور نہ کسی طرح کی تشویش و پروا۔ بلکہ تم ان کو یونہی چھوڑ دو ۔ تاکہ یہ حسد کی اپنی اس ٹھنڈی آگ میں خود جلتے رہیں جو جسم اور ظاہر کو نہیں بلکہ باطن اور قلوب کو جلاتی ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْمٍ ۔ سو اس مضمون کے زور اور اثر کا مدارو انحصار بڑی حد تک " مِنْ خَیْرٍ " کے " مِنْ " استغراقیہ پر ہے جس کا احساس و ادراک ذوق سلیم والوں پر واضح وعیاں ہے۔ مگر تعجب ہوتا ہے کہ عام طور پر بعض بڑے بڑے حضرات مفسرین کرام بھی اس کو " مِنْ “ زائدہ کہہ دیتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں۔ ان کو اس کے لئے مجبوری کیا پیش آتی ہے اور اس تاثیر و بلاغت پر ان کی نظر کیوں نہیں جاتی۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی سے کفار و مشرکین کے خبث باطن اور مسلمانوں سے ان کی عداوت و دشمنی کو آشکارا کردیا گیا، جس میں اہل ایمان کیلئے یہ درس عظیم ہے کہ وہ اپنے ایسے دشمنوں سے کسی طرح کی کوئی توقع نہ رکھیں، بلکہ ہمیشہ محتاط رہیں اور بھروسہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی پر رکھیں۔ ایسے دشمنوں کو نہ اپنا رازدار بنائیں اور نہ پر بھروسہ اور اعتماد کریں۔ 294 اللہ اپنی رحمت سے جس کو چاہے نوازے : تو پھر ان لوگوں کے جلنے اور حسد کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پس تم ان کی فکر کرنے، یا ان کے پیچھے لگنے کی بجائے اس واہب مطلق ۔ جل جلالہ ۔ کی رضا و خوشنودی ہی کی فکر کرو، جس نے تمہیں اس نعمت عظمیٰ سے نوازا اور سرفراز فرمایا ہے۔ اور اس سے اپنا تعلق درست رکھو وباللہ التوفیق۔ اور وہ جسکو بھی نوازتا ہے اور جتنا نوازتا ہے ٹھیک نوازتا ہے، کہ اس کا علم بھی کامل ہے اور اس کی رحمت و عنایت بھی سب پر محیط اور شامل ہے، اور وہی جانتا ہے کون کس لائق ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو جو لوگ اس وحدہ لاشریک کی تقسیم وعطاء پر چلتے اور اعتراض کرتے ہیں وہ خود اپنی حماقت اور جہالت کا ثبوت دیتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ وہ مالک الملک جو چاہے کرے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ کافر خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا دوسرے کھلے مشرکوں میں سے۔ وہ نہیں چاہتے کہ تم پر کوئی بھی خیر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہو اپنے حقد و حَسَد اور بغض وعناد کی بنا پر۔ تو پھر وہ اس سے کیسے اور کس طرح راضی ہوسکتے ہیں کہ تم کو دین و وحی اور قرآن جیسی عظیم الشان نعمت سے نوازا جائے جو کہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ مگر انکے چاہنے یا نہ چاہنے سے کیا فرق پڑ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تو اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ جس کو چاہے نوازے۔ اور جب اور جیسے چاہے نوازے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہوسکتا۔ 295 اللہ بڑے ہی فضل والا ہے : واضح رہے کہ یہاں پر فضل کو اسم ذات ۔ اللہ ۔ کی طرف منسوب فرمایا گیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ فضل فرمانا اس وحدہ لاشریک کی ذاتی صفت ہے، دنیا میں جس کسی پر بھی کوئی فضل و احسان ہوا ہے یا ہوتا ہے۔ یا آئندہ ہوگا۔ وہ اسباب کی اس دنیا میں جس بھی کسی سبب کے پردے میں بھی ہو، وہ سب بہرحال اسی وَحْدَہٗ لا شَرِیْکَ لَہٗ کی طرف ہی سے ہوتا ہے ۔ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی فَلَہٗ الْحَمْدُ وَلَہٗ الشَّکْرُ قَبْلَ کَلّ شَیْئٍ وَ بَعْدَ کُلّ شَیْئٍ ۔ اب دیکھئے کہاں یہ ارشادات وتعلیمات اور کہاں آج کے کلمہ گو مشرکوں کی وہ طرح طرح کی شرکیات جن کا ارتکاب وہ طرح طرح سے اور نت نئے طور طریقوں سے کرتے ہیں۔ جگہ جگہ قبروں آستانوں پر جھکتے، سر ٹیکتے، سجدے کرتے، غیر اللہ کے نام کی دیگیں پکاتے، بانٹتے، طرح طرح کے آستانوں کے پھیرے مانتے، چکر لگاتے، نذریں مانتے، نیازیں دیتے، اور اپنی اولاد کے نام تک، " پیر بخش "، " حضور بخش "، " نبی بخش "، " رسول بخش "، " علی بخش "، " پیراں دتہ "، " علی داد "، " نذر حسین "، " عبدالحسین "، " عبدالرسول " اور " عبدالنبی " جیسے شرکیہ نام رکھتے ہیں۔ ان میں سے جنہوں نے جہالت اور ناواقفی سے ایسے نام رکھ لئے ہیں، وہ تو پھر بھی کسی حد تک معذور ہوسکتے ہیں۔ مگر جو جان بوجھ کر ایسے نام رکھتے ہیں، اور پھر بھی کہتے ہیں کہ ہم توحید والے اور سنی مسلمان ہیں، تو ان کا معاملہ یقینا الگ اور قابل غور، اور لائق توجہ ہے کہ اس طرح کی سب شرکیات کے باوجود نہ ان کا ایمان بگڑے نہ توحید میں کچھ فرق آئے، اور نہ ان کی نام نہاد سنیت کے دعوے پر کوئی اثر پڑے، تو پھر کوئی بتائے کہ شرک اور کس بلا کا نام ہے ؟ اور مشرک اور کس کو کہتے ہیں ؟ ۔ فَاِلَی اللّٰہ الْمُشْتَکٰی ۔ وَہُوَ الْمُسْتَعَانُ وَ عَلَیْہ التَّکْلانُ ۔ جَلَّ جَلالَہٗ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ فضل اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے۔
Top