Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 80
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
بَدِیْعُ : پیدا کرنے والا السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاِذَا : اور جب قَضٰى : وہ فیصلہ کرتا ہے اَمْرًا : کسی کام کا فَاِنَّمَا : تو یہی يَقُوْلُ : کہتا ہے لَهٗ كُنْ : اسے ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے
(وہ بلا شرکت غیرے) موجد ہے آسمانوں اور زمین (کی حیرت انگیز اور وسیع و عریض کائنات) کا، اور (اس کی عظمت شان کا یہ عالم ہے کہ) جب وہ کسی چیز کا ہونا طے کرلیتا ہے، تو (اس کے لئے) صرف اتنا فرماتا ہے کہ ہوجا تو وہ (فوراً موجود اور) ہوچکی ہوتی ہے،3
323 سب ہی اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرمانبردار ہیں : تکوین و تخلیق کے دائرے میں تو سب ہی اس کے مطیع و فرمانبردار ہیں، اور اس لحاظ سے اس کائنات کی ایک ایک چیز اس کی اطاعت گزار اور فرمانبردار ہے، حتی کہ کافر و منکر، اور باغی و سرکش، بھی تکوینی امور میں اس وحدہ لاشریک کا فرما نبردار ہے۔ چناچہ وہ اپنی پیدائش، اپنی موت، اپنی عقل و فکر، اپنی رنگت و نسل، اپنے قد کاٹھ، وغیرہ وغیرہ تمام امور میں اسی کا تابع فرماں ہے، مگر تکوین و تخلیق کے اس دائرے میں پائی جانے والی انسان کی اس جبری اور غیر اختیاری اطاعت و فرمانبرداری پر اس کے لئے کوئی اجر وثواب نہیں، کیونکہ یہ اطاعت و فرمانبرداری اس کے اپنے ارادہ و اختیار سے نہیں، بلکہ مجبوری اور اضطرار کی بنا پر ہے، اور اجر وثواب ملتا ہے اس اطاعت و فرمانبرداری پر جو کہ انسان کے اپنے ارادہ و اختیار سے، اور برضا ورغبت ہو، اور اسی کو تشریعی فرمانبرداری کہا جاتا ہے۔ اس میں انسان کو آزاد و خود مختار بنایا گیا ہے کہ ابتلاء و آزمائش اور امتحان و اختیار کا دار و مدار اسی پر ہے۔ اور جنت و دوزخ کے فیصلے اور اس کے استحقاق کا مدارو انحصار بھی بنیادی طور پر اسی پر ہے۔ اور اس تشریعی فرمانبرداری کے لحاظ سے بھی بہت سے لوگ اس وحدہ لاشریک کے مطیع و فرمانبردار ہیں، جیسے حضرات انبیاء کرام، ملائکہ کرام، صحابہ کرام، اور صلحا عظام، اور دیگر تمام مومنین صادقین وغیرہ جو کہ اپنے ارادہ و اختیار سے، اور اپنی رغبت و شوق سے اپنے خالق ومالک کے آگے جھکتے، اسی کے حضور سجدہ ریز ہوتے اور اسی کی اطاعت و بندگی سے سرشار ہوتے ہیں جس سے وہ اپنے رب کے یہاں عظیم الشان مراتب و درجات کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ جبکہ دوسرے بہت سے لوگ اس تشریعی اور اختیاری اطاعت و فرمانبرداری سے اعراض و سرکشی کر کے دوزخ اور اس کے درکات کے حقدار بنتے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ سورة حج کی اٹھارہویں آیت کریمہ میں اس بات کو پوری صراحت و وضاحت سے بیان فرمایا گیا ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ 324 ساری کائنات کا موجِد اللہ تعالیٰ ہی ہے : سو آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات کا موجد اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے۔ اور جب اس کائنات کی تخلیق و ایجاد میں اس کا کوئی شریک وسہیم نہیں، تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک وسہیم کیسے ہوسکتا ہے ؟ پس معبود برحق وہی اور صرف وہی وحدہ لاشریک ہے، اور عبادت کی ہر شکل اور ہر قسم اسی کا حق، اور اسی کے ساتھ مختص ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور اس کے سوا اور کسی کے لئے بھی عبادت کی کوئی بھی قسم کسی بھی شکل میں بجا لانا شرک ہوگا جو کہ ظلم عظیم ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ مگر دنیا ہے کہ اس ظلم عظیم کا ارتکاب ہمیشہ کرتی رہی اور آج تک کرتی جا رہی ہے۔ چناچہ روئے زمین پر جگہ جگہ اور طرح طرح سے کفر و شرک کے اس ہولناک جرم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ کھلے کفار و مشرکین کا تو کہنا ہی کیا۔ انکا تو معاملہ ہی الگ ہے۔ اسلام کا نام لینے والے کلمہ گو مشرکوں کا بھی حال یہ ہے کہ وہ بھی اس میں ملوث ہیں۔ چناچہ وہ بھی جگہ جگہ سجدے کرتے، طواف کرتے، چکر لگاتے، پھیرے مانتے، صدیوں پرانی قبروں اور بنے ٹھنے قبوں کے آگے جھکتے ان سے اپنی مرادیں مانگتے، حاجتوں کا سوال کرتے، ان کی نام کی نذریں مانتے، نیازیں دیتے، چڑھاوے چڑھاتے اور دیگیں پکاتے ہیں۔ اور ایسے اور اس حد تک کہ حضرت قادر مطلق ۔ جل جلالہ ۔ کو بھول ہی گئے اور یہاں تک کہ ان میں سے بعض اس طرح کا کفر بکتے ہیں کہ ہمیں تو سب کچھ یہیں سے اور اسی قبر والے کی طرف سے اور اسی درگاہ سے ملتا ہے۔ ہم تو بس اسی درگاہ کے کتے ہیں۔ یہاں سے نہیں ہٹیں گے اور اس کو کبھی نہیں چھوڑیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس قدر کفر و شرک اور ایسی بغاوت و سرکشی کے باوجود ایسے ظالموں کو ڈھیل دینا، اسی وحدہ لا شریک کی شان حلم و کرم کا کام ہوسکتا ہے اور بس ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اس کے سوا اور کسی کے لیے ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 325 اللہ تعالیٰ کی شان کن فیکون کا ذکر : سو یہ اللہ تعالیٰ کی عظمت شان کا ایک خاص پہلو ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ یعنی وہ جب کوئی کام کرنا چاہتا تو اس کیلئے اس کو کوئی لمبی چوڑی تیاری نہیں کرنی پڑتی۔ جیسا کہ انسانوں کے یہاں ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو اس کیلئے صرف حکم فرمانا ہوتا ہے اور بس۔ اور اس سے بھی مراد کلمہ " کُنْ "، " ہوجا " بولنا نہیں بلکہ یہ دراصل کنایہ ہے اس کے ارادے سے ۔ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی ۔ ورنہ اس کے یہاں یہ لفظ بولنے کی بھی حاجت نہیں بلکہ جونہی کسی چیز کا ارادہ فرمایا اور چاہا وہ ہوگئی ۔ سبحان اللہ ! ۔ کیسی اقدس و اعلیٰ شان ہے اس خالق ومالک وحدہ لاشریک کی ؟ اور کس قدر غلط اور ٹیڑھی سوچ والے ہیں وہ لوگ جو اس کو دنیاوی بادشاہوں پر قیاس کرکے اس کے لیے طرح طرح واسطے اور وسیلے گھڑتے اور ڈھونڈتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو وہ ایسے تمام تصورات سے پاک اور اعلی وبالا ہے۔ سبحانہ و تعالی۔ سو اس وحدہ لا شریک کے لئے شریک وسہیم ماننا، اور اس کی رحمت و عنایت تک رسائی کیلئے وسیلے ڈھونڈنا کتنا بڑا ظلم ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم من کل زیغ و ضلال -
Top