Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 118
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ لَوْ لَا یُكَلِّمُنَا اللّٰهُ اَوْ تَاْتِیْنَاۤ اٰیَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّثْلَ قَوْلِهِمْ١ؕ تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِينَ : جو لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے لَوْلَا : کیوں نہیں يُکَلِّمُنَا : کلام کرتا ہم سے اللّٰہُ : اللہ اَوْ تَأْتِينَا : یا نہیں آتی ہمارے پاس اٰيَةٌ : کوئی نشانی کَذٰلِکَ : اسی طرح قَالَ : کہا الَّذِينَ : جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے مِثْلَ : جیسی قَوْلِهِمْ : بات ان کی تَشَابَهَتْ : ایک جیسے ہوگئے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل قَدْ بَيَّنَّا : ہم نے واضح کردیں الْآيَاتِ : نشانیاں لِقَوْمٍ : قوم کے لئے يُوْقِنُوْنَ : یقین رکھنے والے
اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (حق اور حقیقت کا) ان کا کہنا ہے کہ اللہ (تعالیٰ ) ہم سے (براہ راست) کلام کیوں نہیں کرتا، یا ہمارے پاس کوئی خاص نشانی کیوں نہیں آجاتی، اسی طرح انہی لوگوں کی بات جیسی بات ان لوگوں نے کہی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں، ان سب (اگلوں پچھلوں) کے دل آپس میں ایک جیسے ہیں، بیشک ہم نے کھول کر بیان کردی ہیں اپنی نشانیاں، ان لوگوں کے لئے جو (ایمان و) یقین (کی روشنی) رکھتے ہیں،4
326 علم حق کے نور سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ : اور اس طرح ایسے لوگ حق اور حقیقت کے ادراک سے بیخبر ہوتے ہیں کہ اس طرح کے احمقانہ اور گستاخانہ سوالات کرنا ایسے ہی لوگوں کا کام ہوسکتا ہے، جو علم کے نور سے محروم ہوتے ہیں۔ ورنہ جو لوگ حق اور حقیقت کا علم رکھتے ہیں ان کی شان ہی الگ ہوتی ہے۔ وہ ایسے سوالات کبھی نہیں کرتے۔ سو علم اصل میں وہی ہے جو انسان کو حق اور حقیقت سے آگاہ و روشناس کرے ورنہ انسان جاہل ہی ہے خواہ وہ دنیاوی اعتبار سے کتنی ہی ڈگریاں کیوں نہ اٹھائے ہوئے ہو، بلکہ وہ جہل بسیط سے بڑھ کر جہل مرکب کا شکار ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس حق اور حقیقت کا علم ہی وہ اصل علم اور اسکا نور ہی وہ اصل نور ہے جو انسان کیلئے حق اور صواب کی راہیں روشن کرتا اور اس کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرتا ہے، ورنہ اندھیرے ہی اندھیرے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید ۔ 327 اہل باطل کے غرور اور گھمنڈ کا ایک خاص پہلو : یعنی ان کا کہنا ہے کہ اللہ ہم سے براہ راست بات کیوں نہیں کرتا، جیسا کہ وہ فرشتوں سے کرتا ہے، یا جس طرح کہ اس نے حضرت موسیٰ کلیم اللہ سے کلام کیا۔ یا بالواسطہ طور پر وحی اور فرشتے کے ذریعے، جس طرح کہ وہ دیگر انبیاء و رسل سے کلام کرتا ہے۔ سو یہ ان لوگوں کے تکبرو عناد کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اپنے گھمنڈ کی بناء پر اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھ لیا، جیسا کہ سورة فرقان کی بائیسویں آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے { لَقَد اسْتَکْبَرُوْا فِٓیْ اَنْفُسِہِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیْرًا } ۔ سو تکبر اور اپنی بڑائی کا جھوٹا گھمنڈ، اور ایمان و یقین سے محرومی، اور قیامت اور اس کی بازپرس سے بےفکری ایسے ہی گل کھلاتی ہے کہ اس میں مبتلا ہو کر انسان اسی طرح کی خرمستیاں کرنے لگتا ہے ۔ َالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْمٍ ۔ سو اللہ پاک نہ ہر کسی سے کلام فرماتا ہے اور نہ ہی یہ بات عقل اور نقل کے تقاضوں کے مطابق ہے کہ وہ ہر کسی سے براہ راست کلام فرمائے۔ اور نہ ہی ہر کسی کے اندر اس کی اہلیت و صلاحیت ہی ممکن ہے، کہ وہ براہ راست اللہ پاک کے کلام کو سننے کا متحمل ہوسکے۔ بلکہ اس مقصد کیلئے وہ مالک مطلق اپنے بندوں میں سے کچھ کو چنتا ہے، اور ان کو نبوت و رسالت کے شرف سے نواز کر انکے ذریعے تمام مخلوق تک اپنا کلام پیغام پہنچاتا ہے، ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور یہی تقاضا ہے عقل اور نقل کا۔ اور اسی میں بھلا ہے بنی نوع انسان کا۔ دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس ابدی جہاں میں بھی ۔ وباللہ التوفیق ۔ 328 مشرکین کا فرمائشی معجزے کا مطالبہ : یعنی ان کی ان فرمائشی نشانیوں میں سے کوئی نشانی، جن کا مطالبہ یہ لوگ کیا کرتے تھے جیسا کہ سورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر 90 سے آیت نمبر 93 میں ذکر فرمایا گیا ہے، کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ آپ ہمارے لئے اس زمین کو پھاڑ کر اس میں سے ایک عظیم الشان چشمہ جاری کردیں۔ یا آپ کیلئے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی ایسا عظیم الشان باغ ہو جسکے درمیان نہریں رواں دواں ہوں، یا آپ آسمان کو ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرا دیں۔ جیسا کہ آپ کا دعوی ہے۔ یا آپ اللہ اور اس کے فرشتوں کو ہمارے سامنے لاکھڑا کریں۔ یا آپ کیلئے سونے کا ایک گھر ہو، یا آپ آسمان میں چڑھ جائیں اور صرف چڑھنے ہی کو ہم نہ مانیں گے، یہاں تک کہ آپ ہم پر کوئی ایسی کتاب نہ اتار دیں جس کو ہم خود پڑھیں۔ سو ان سب کے جواب میں پیغمبر کو یہ کہنے کی ہدایت فرمائی گئی کہ کہو میں تو محض ایک بشر اور انسان ہوں جس کو رسول اور پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے اور بس ۔ { ھَلْ کُنْتُ اِلّا بَشَرًا رَّسُوْلًا } ۔ یعنی میں نے ایسی کسی خدائی صفت کا کوئی دعویٰ کیا ہی کب ہے کہ تم لوگ مجھ سے اس طرح کے سوالات کرو ؟ جن کا تعلق خدائی صفات و اختیارات سے ہے ؟ میں تو اللہ کا پیغام پہنچانے والا ایک بشر اور رسول ہوں اور بس۔ سو میرا پیغام اگر تم لوگ صدق دل سے قبول کروگے تو تمہارا اپنا بھلا ورنہ خود تمہارا نقصان ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْمٍ ۔ بہرکیف مشرکین نے کہا کہ اللہ براہ راست ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی۔ سو یہ نشانی ہے ان لوگوں کے کبر و غرور کی ۔ والعیاذ باللہ ۔ 329 حق سے محروم لوگوں کے مطالبے ایک ہی طرح کے : یعنی یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ اس سے پہلے کے منکروں کا حال بھی یہی تھا کہ انہوں نے بھی اپنے انبیاء و رسل سے اسی طرح کے مطالبے کئے جیسے یہود نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا ۔ { اَرِنَا اللّّٰہَ جَہْرَۃً } ۔ نیز انہوں نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے، وغیرہ وغیرہ۔ سو ان لوگوں کا اس طرح کہنا کوئی حقیقت حال کو جاننے اور سمجھنے کیلئے نہیں تھا بلکہ محض عناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر تھا (المراغی وغیرہ) ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو نور حق و ہدایت اور دولت ایمان و یقین سے محروم لوگوں کا حال ہمیشہ ایک ہی طرح کا رہا، اور انہوں نے اپنی بےفکری، لاپرواہی اور عناد و ہٹ دھرمی وغیرہ کی بناء پر ہمیشہ اسی طرح کے لایعنی مطالبات و سوالات کیے اور اس کے نتیجے میں پیغام حق و ہدایت سے منہ موڑ کر انہوں نے خود اپنا ہی نقصان کیا۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 330 اہل باطل کے دل آپس میں ایک جیسے : کجی و قساوت اور زیغ و ضلال وغیرہ میں، اور زبان تو محض ترجمان ہے دل کی۔ جو کچھ دل کے اندر ہوگا وہی زبان پر آئے گا۔ اور اعضاء وجوارح تو سلطان دل کے کارندے، اور اس کے حکم پر چلنے والے ہیں۔ سو جب دل بگڑ اور بدل گئے، تو پھر ان اعضاء کی درستگی کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے ؟ اسی کو حضرت نبئ معصوم ـــعلیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مشہور و معروف ارشاد سامی میں اس طرح بیان فرمایا کہــ " انسانی جسم کے اندر گوشت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے کہ جب وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح ہوگا، اور جب وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ گیا، آگاہ رہو کہ وہ ٹکڑا دل ہے " ۔ ـ ــــــــــــــــــــــــــــــــاَللّٰہُمَّ مُقَلِّبَ الْقُلُوْب ثَبِّتْ قُلُوْبَنَا عَلٰی دِیْنِکََ ـ اَللّٰہُمَّ مُصََرِّفَ الْقُلُوْب صَرِّفْ قُلُوْبَناَ اِلٰی طَاعَتِکَ , وَ احْفَظْنََا منْ اَمْرََاض الْبَاطِنِ وَ الظَّاہِر بہرکیف ــاہل باطل کے دل اور ان کے بواطن آپســــــ میں چونکہ ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں اور کفر و باطل کی سیاہی ان سب ہی پر چھائی ہوئی ہوتی ہے، اس لیے ان کے مونہوں سے باتیں بھی ایک ہی طرح کی نکلتی ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْمٍ ۔ سو اصلاح و فساد کا اصل تعلق انسان کے اپنے قلب وباطن سے ہے۔ 331 ہم نے کھول کر بیان کردیں اپنی نشانیاں ــــ:ــــ ۔ مگر اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور نشانیوں سے مستفید ہونے کیلئے اولین شرط نور ایمان و یقین سے سرفرازی ہے جس سے ایسے منکر اور ہٹ دھرم لوگ محروم ہیں تو پھر یہ ان سے آخر کیوں اور کس طرح مستفید ہوسکتے ہیں۔ بہر کیف اس بارے ارشاد فرمایا گیا کہ ایک نشانی کیا ہم نے تو طرح طرح کی ایسی نشانیوں کا سامان کیا ہے جو کہ احقاق حق، اور ابطال باطل کیلئے کافی و وافی ہیں۔ جن میں سب سے بڑی نشانی جو ہزاروں نشانیوں پر مشتمل ہے، قرآن حکیم کی یہ عظیم الشان نشانی ہے، جو کہ آیت خالدہ اور معجزہ کبریٰ کے طور پر قیامت تک موجود و محفوظ رہے گی مگر اس سے فائدہ انہیں لوگوں کو پہنچ سکے گا جو ضد وعناد اور ہٹ دھرمی سے پاک صاف ہو کر اور تعصب کی عینک اتار کر صدق دل سے اس کی طرف رجوع کریں گے اور ایمان لانا اور یقین حاصل کرنا چاہیں گے، اور اس کے برعکس جو لوگ اعراض و استکبار اور عناد و ہٹ دھرمی سے کام لیں گے اور اپنے دل و دماغ کے منافذ اور اپنے سمع و بصر کے ذرائع علم و ادراک بند کرلیں گے، وہ بہرحال اس سے محروم ہی رہیں گے۔ سو عناد اور ہٹ دھرمی باعث ہلاکت و محرومی ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْمٍ -
Top