Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 124
وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ١ؕ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا١ؕ قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ١ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذِ
: اور جب
ابْتَلٰى
: آزمایا
اِبْرَاهِيمَ
: ابراہیم
رَبُّهٗ
: ان کا رب
بِکَلِمَاتٍ
: چند باتوں سے
فَاَتَمَّهُنَّ
: وہ پوری کردیں
قَالَ
: اس نے فرمایا
اِنِّيْ
: بیشک میں
جَاعِلُکَ
: تمہیں بنانے والا ہوں
لِلنَّاسِ
: لوگوں کا
اِمَامًا
: امام
قَالَ
: اس نے کہا
وَ
: اور
مِنْ ذُرِّيَّتِي
: میری اولاد سے
قَالَ
: اس نے فرمایا
لَا
: نہیں
يَنَالُ
: پہنچتا
عَهْدِي
: میرا عہد
الظَّالِمِينَ
: ظالم (جمع)
اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب آزمایا ابراہیم کو ان کے رب نے چند باتوں کے ذریعے، تو ابراہیم ان کو بتمام (و کمال) بجا لائے،4 تب اللہ (تعالیٰ ) نے فرمایا کہ میں تمہیں سب لوگوں کا پیشوا بناتا ہوں،5 ابراہیم نے عرض کیا، اور (کیا) میری اولاد سے بھی (یہی وعدہ ہے ؟ ) فرمایا میرا عہد (و پیمان) نہیں پہنچتا ظالموں کو،
342 حضرت ابراہیم کے قصے سے عبرت پذیری کی تعلیم و تلقین : سو تم لوگ حضرت ابراہیم کے اس قصے کو یاد کرو کہ اس میں بڑے درسہائے عبرت و بصیرت ہیں، کہ حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) کی ہستی وہ عظیم الشان اور جلیل القدر ہستی ہے جن کو سب ہی اپنا مقتدا و پیشوا مانتے ہیں۔ یہود بھی، اور نصاریٰ بھی۔ اور مشرکین مکہ کے تو فخر و اعتزاز کی اساس و بنیاد ہی یہ تھی کہ ہم نسل ابراہیمی سے تعلق رکھتے، اور ان کے بنائے گھر کے مجاور و متولی اور خادم و کارندے ہیں، جبکہ مسلمان ہیں ہی ملت ابرا ہیمی پر۔ تو ایسے میں حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) کی صدق و صفا سے بھرپور، اور ایثار و قربانی والی زندگی، کا آئینہ ان لوگوں کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ خود دیکھ لیں کہ ابراہیم کہاں اور کیسے تھے ؟ اور یہ کہاں اور کیسے ہیں ؟ اور ان کی محبت وتعلق کے دعوے میں یہ کہاں تک سچے اور حق بجانب ہیں، سو ایسے قصوں کی یاددہانی میں عبرت پذیری کی تعلیم و تلقین ہے، وباللہ التوفیق۔ بہرکیف اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ صرف زبانی کلامی دعو وں اور حضرت ابراہیم کا نام لینے سے کام نہیں چلے گا جب تک ان کے طریق کار کو نہ اپنایا جائے۔ اس کو اپنا نصب العین نہ بنایا جائے اور ان کی ملت نہ اپنایا جائے یعنی اس دین حق کو جو کہ اب تمہارے سامنے اسلام کے نام سے اور اس کی پاکیزہ اور مقدس تعلیمات کی صورت میں تمہارے سامنے پیش کیا جا رہا ہے کہ اب حق بہرحالی یہی ہیـ۔ اس کے سوا سب اندھیرے اور خواہشات نفس کے پلندے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 343 ابتلائے ابراہیم کا مطلب اور اسکا اصل مقصد ؟ : سو رب نے ان کو آزمایا تاکہ اس طرح دنیا کے سامنے ان کے انقیاد بےمثل کے آئینہ میں ان کے کارنامے پوری طرح ظاہر ہو سکیں، اور ان سب کو یقین ہوجائے کہ واقعی ابراہیم اس عظیم الشان مرتبہ و مقام کے بجا طور پر اہل اور مستحق تھے، جس سے ان کو نوازا گیا۔ ان کو خلت سے سرفراز فرمایا گیا، اور وہ خلیل اللہ قرار پائے۔ ورنہ اللہ پاک ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کو کسی امتحان اور آزمائش کی کیا ضرورت ؟ وہ تو اپنے علم ازلی و ابدی کی بنا پر سب ہی کچھ جانتا ہے، اور پوری طرح اور ہر اعتبار سے جانتا ہے، کہ اس کے یہاں ماضی و مستقبل عیاں و نہاں اور ظاہر و باطن سب ایک برابر ہیں، مگر وہ ابتلاء و آزمائش کی بھٹی سے گزارتا ہے تاکہ اصل حقیقت سب کے سامنے پوری طرح آشکارا ہوجائے اور کھرا کھوٹا سب کا سب سامنے آجائے، تاکہ اس کے بعد نہ کسی کیلئے کسی سوال و اعتراض کی کوئی گنجائش باقی رہے اور نہ کسی شک و شبہ کی اور پوری طرح واضح ہوجائے کہ حضرت ابراہیم واقعی ان انعامات کے مستحق تھے جن سے ان کو نوازا گیا تھا۔ 344 وہ چند باتیں جن کے ذریعے حضرت ابراہیم کی آزمائش کی گئی : یعنی ایسی چند باتوں کے ذریعے جن سے یہ امر پوری طرح واضح ہوگیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) کو قدرت نے جس بےمثل مقام، اور عظیم الشان انعام سے نوازا، وہ واقعی اس کے اہل تھے۔ سو ان کی ساری زندگی توحید خداوندی کی تعلیم و تبلیغ، کفر و شرک کی تردید و بیخ کنی، اور راہ حق میں ہر ایثار و قربانی سے عبارت تھی۔ آنکھ کھولی تو چاروں طرف کفر و شرک اور بت پرستی کے مہیب اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ باپ نہ صرف بت پرست، بلکہ بت ساز اور بت فروش بھی تھا، اور اس کا یہ کاروبار عروج پر تھا۔ قوم شرک و بت پرستی کی دلدل میں بری طرح غرق تھی۔ وقت کا مطلق العنان حکمران ایک ایسا ظالم و جابر ڈکٹیٹر تھا کہ وہ خود اپنی خدائی کا دعویدار تھا ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ حضرت ابراہیم خلیل (علیہ الصلوۃ والسلام) نے ان سارے محاذوں پر تن تنہا جنگ لڑی، اور کامل اخلاص اور بےمثل استقامت کے ساتھ لڑی۔ باپ چاہتا تھا کہ آپ میری گدی سنبھالیں، اور جو کام میں کرتا ہوں وہی کریں، تاکہ اس طرح زیادہ سے زیادہ دنیاوی فائدے حاصل کرسکیں۔ اگر آپ ایسا کرتے تو بلاشبہ دنیاوی اعتبار سے بہت عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے، مگر آپ نے حق کی خاطر شرک و بت پرستی سے ملنے والے ان تمام مفادات کو لات مار دی، اور سب سے پہلے باپ کو روکا ٹوکا، اور اس کو حق کی دعوت دی، مگر اس نے آپ کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے حضرت ابراہیم سے بائیکاٹ کردیا، اور آپ کو سنگسار کردینے کی سخت دھمکی کے ساتھ، اپنے گھر سے نکال دیا۔ اور صاف وصریح طور پر کہہ دیا { وَاھْجُرْنِیْ مَلِیًّا } ۔ حضرت ابراہیم نے اپنے رب کی رضا کی خاطر اس کو بھی قبول اور برداشت کرلیا، اور اپنے باپ سے بھی الگ ہوگئے، پھر آپ نے اپنی قوم کو خطاب کیا اور ان کو بت پرستی سے باز رکھنے کی کوشش کی، مگر انہوں نے بھی نہ مانا۔ پھر آپ نے شرک و بت پرستی کیخلاف عملی اقدام کیا، اور موقع پا کر ان کے بتوں کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا، اس پر ان لوگوں نے آپکو آگ کے ایک ہولناک الاؤ میں جھونک دیا۔ آپ نے حق کی خاطر اس کو بھی بخوشی بخوشی قبول کرلیا، اور اس کے نتیجے میں وہ آگ اللہ پاک کے حکم و ارشاد اور اس کی توفیق و عنایت سے آپ کے لئے گل و گلزار بن گئی۔ پھر آپ نے وقت کے مطلق العنان حکمران کے دربار میں پہنچ کر اس کو حق کی دعوت دی، اور آپ جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کے افضل ترین جہاد سے مشرف ہوئے۔ پھر جب ان میں سے کسی نے بھی آپ کی دعوت کو قبول نہ کیا، تو حق کی خاطر اور اپنے رب کی رضا کے حصول کیلئے آپ نے اپنے وطن مالوف کو بھی خیرباد کہہ دیا، اور عراق چھوڑ کر فلسطین پہنچ گئے۔ پھر ایک عرصہ تک وہاں قیام کرنے کے بعد، اپنے بھتیجے لوط کو وہاں چھوڑ کر آپ نے ارض حجاز کی راہ لی، اور اپنے بیٹے اور بیوی کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وہاں کی وادیء غیرذی ذرع میں چھوڑ کر خود واپس ہو لئے۔ پھر ایک اور آزمائش یہ پیش آئی کہ وہی بچہ جو بڑھاپے میں بڑے ارمانوں اور دعاؤں اور التجاؤں کے بعد قدرت کی طرف سے عطاء ہوا تھا، اس کے بھی قربان کردینے کا اشارہ مل گیا، تاکہ یہ ظاہر ہو سکے کہ کہیں اس کی محبت تو محبت خداوندی پر غالب نہیں آگئی، تو باپ بیٹا دونوں اس عظیم الشان قربانی کے لئے بھی تیار ہوگئے، اور عظیم الشان باپ نے اپنے عظیم الشان اور ہونہار بیٹے کے گلے پر اپنے رب کی رضا کے حصول کیلئے چھری چلا دی۔ جس پر رب کی طرف سے آپ کو { قَدْ صَدَّقَّتَ الرّؤْیا } ۔ کی عظیم الشان سند اور بےمثال ڈگری مل گئی۔ پھر اپنے لئے کوئی گھر وغیرہ بنانے کی بجائے آپ اپنے اسی بیٹے کے ہمراہ اپنے خالق ومالک کی رضا و خوشنودی اور اس کی عبادت و بندگی کیلئے ارض مکہ میں اس عظیم الشان گھر کی تعمیر میں مشغول ہوگئے، جو ہزاروں سال سے آج تک مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔ اور جہاں دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے کوئی ایک منٹ سیکنڈ بھی ایسا نہیں گزرتا، کہ جب وہاں طواف و نماز، فرض و نفل، تلاوت و تسبیح، تعلیم و تبلیغ اور ذکر و تذکیر وغیرہ وغیرہ، قسماقسم کی عبادات نہ ہوتی ہوں، اور انشاء اللہ تاقیام قیامت ایسے ہی ہوتا رہے گا۔ تو کیا دنیا میں دوسرا کوئی مقام یا گھر ایسا ہوا ہے یا ہوسکتا ہے ؟ جس کی یہ شان ہو ؟ اور کیا ہے دوسری ایسی کوئی ہستی یا ہوسکتی ہے جس کی پوری زندگی اس طرح کی ان عظیم الشان قربانیوں سے عبارت ہو ؟ جس نے حق کیلئے اور اپنے رب کی رضا کی خاطر، اپنے ماں باپ کو چھوڑا ہو ؟ قوم و ملک کو چھوڑا ہو ؟ برضا ورغبت آگ میں کود جانا برداشت کرلیا ہو ؟ وقت کے ایسے جابر و ظالم حاکم کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر، صاف اور برملا طور پر حق کی بات کہی ہو، جو کہ اپنی خدائی کا دعویدار تھا ؟ اور یہ کہ جس نے محض رضأ خداوندی کیلئے اپنے پیارے اور اکلوتے بیٹے کے گلے پر چھری چلائی ہو ؟ اور ہے ایسی کوئی ہستی جس نے اپنے لئے تو جھونپڑے کی بھی پرواہ نہ کی ہو لیکن رضا خداوندی کیلئے خود اپنے ہاتھوں اور اپنے پیارے اور لاڈلے بیٹے کے ہاتھوں، خدا کی عبادت کیلئے ایسے گھر کی تعمیر کی ہو ؟ اسی لئے رَب غَفُور و شکور نے آنجناب کو، ایسے انعامات سے نوازا کہ وہ بھی آپ کے سوا اور کسی کے حصے میں بھی نہیں آئے۔ ایک طرف تو آپ کو امتحان میں کامیابی کی سند اس طرح عطا فرمائی گئی ۔ { فَاَتَمَّہُنَّ } ۔ کہ ابراہیم ان باتوں کو بتمام و کمال بجائے لائے، نیز یہ کہ { وَاِبْرَاہِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی } " اور ابراہیم جس نے وفا کا حق ادا کردیا "۔ پھر قرآن حکیم میں جگہ جگہ اور طرح طرح سے آپ کا ذکر خیر فرمایا، جو آج تک باقی ہے، اور قیامت تک باقی رہے گا۔ پھر نماز میں درود ابراہیمی کے اندر آپ کا ذکر، جو ہر نمازی اپنی ہر نماز میں صبح و شام کرتا ہے، پھر نہ صرف آپ کے بلکہ آپ کی زوجہء مطہرہ کے بعض اعمال و افعال کو بھی حج وعمرہ کی عظیم الشان عبادتوں کا حصہ قرار دے کر زندہ جاوید کردیا گیا۔ اور یہاں تک کہ امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو بھی اسی ابراہیم حنیف کی ملت حنیفیہ کی اتباع و پیروی کا حکم دیا گیا، ارشاد ہوتا ہے۔ { ثُمََّ اََوْحَََیْنَآ اِلَیْْکَ اََن اتََّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرَاہِِیْمَ حََنِِیْفًا } ۔ (النحل : 123) ۔ سو یہ ہے شان ابراہیمی اور مقام ابراہیم کا ایک ہلکا اور مختصر سا تعارف۔ افسوس بھی ہوتا ہے اور تعجب بھی کہ حضرات مفسرین کرام نے بالعموم حیات ابراہیمی کے ان عظیم الشان پہلوؤں کو نظر انداز کر کے، دوسرے مختلف اور ہلکی قسم کے اوصاف کو ان کلمات امتحان کا مصداق قرار دے دیا، جیسے فطرت سے تعلق رکھنے والے خصال عشرہ کو یعنی مونچھیں کٹوانا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن کٹوانا اور براجم یعنی جوڑوں کا دھونا وغیرہ۔ اگرچہ ان امور فطرت کا ذکر صحیح مسلم وغیرہ کی روایات میں آیا ہے، مگر ان کے بارے میں کسی بھی روایت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) کو جن کڑے امتحانوں سے گزارا گیا تھا، ان سے مراد یہی خصال عشرہ ہیں، جو کہ ایک عام مسلمان بھی بجا لاتا ہے۔ اسی لئے مفتی محمد عبدہ وغیرہ محققین نے سخت الفاظ میں اس کی تنقید کی ہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر المنار تحت ہذہ الآیۃ) ۔ جبکہ کچھ حضرات نے ان خصال خیر کو ان کا مصداق قرار دیا ہے جو اہل ایمان کی صفات کے ضمن میں سورة توبہ، مومنون، اور احزاب، وغیرہ میں بیان فرمائی گئی ہیں، حالانکہ وہ صفات بھی بہت سے عام مسلمانوں میں پائی جاتی رہی ہیں۔ پہلے بھی پائی جاتی تھیں، اور آج بھی پائی جاتی ہیں، گو کہ وہ اپنی جگہ بیشک بڑی اہم اور عظیم الشان صفات ہیں، مگر وہ بھی ایسی نہیں ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) کی ان کڑی آزمائشوں کا اصل مصداق بن سکیں۔ اس بندہ ناچیز نے اس بارے جو کچھ یہاں بیان کیا ہے، اس کے کچھ منتشر اجزاء اگرچہ " المنار "، اور " القاسمی " وغیرہ بعض تفسیروں میں ملیں گے، مگر ایسی تفصیل کے ساتھ کہیں پر شاید ہی مل سکیں ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہ رَبّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ اور " کلمات " (باتوں) کیلئے ضروری نہیں کہ اس سے مراد زبانی باتیں ہی ہوں، جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے، بلکہ یہ محاورے میں امور و افعال کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور ایسا ہر زبان میں ہی ہوتا ہے، مثلاً اردو میں بھی کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں شخص کو کچھ باتوں میں آزمایا، مگر وہ سب ہی میں پورا نکلا، مثلًا محنت و مشقت، اطاعت و فرمانبرداری، دیانت و امانت اور وقت کی پابندی اور فرض شناسی وغیرہ۔ اور محض توضیح کیلئے یہ مثال دی گئی ہے، ورنہ اللہ پاک ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ تو مثالوں سے پاک ہے ۔ وَلَہٗ الْمَثَلُ الاَعْلَی ۔ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی ۔ 345 آزمائش میں کامیابی پر حضرت ابراہیم کیلئے انعام خداوندی کا اعلان : یہ وہ انعام و صلہ ہے جس سے حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) کو ان کے رب کی طرف سے ان عظیم الشان قربانیوں کے صلے اور بدلے میں نوازا گیا، اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ حضرت ابراہیم کو یہود و نصاریٰ اور مشرکین وغیرہ سب ہی اپنا پیشوا مانتے ہیں، اور مسلمان تو ہیں ہی ملت ابراہیمی پر۔ سو جس طرح حضرت ابراہیم نے اپنی عظیم الشان اور بےمثل اطاعت و فرمانبرداری کا ثبوت دیا، اور وفاداری کا حق ادا کیا، اسی طرح رب غفور و شکور نے ان کو نوازا بھی ایسے بےمثل انعام سے، جو انکے سوا اور کسی کے حصے میں نہیں آسکا ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ و علی نبینا محمد وعلی سائر الانبیاء والمرسلین ۔ اور اس انعام کا حضرت حق جل مجدہ کی طرف اس طرح صاف وصریح طور پر واضح اعلان بھی فرما دیا گیا کہ میں نے آپ کو سب لوگوں کا امام اور پیشوا بنادیا، اور آپ کی یہ عظیم الشان اور بےمثال امامت و پیشوائی سب کے یہاں آج تک مسلم ہے، اور قیامت تک اسی طرح رہے گی، اور پھر یہ امامت و پیشوائی بھی اسی پاکیزہ، روحانی اور بےمثل پیشوائی ہے کہ اس کی بناء پر ہمیشہ اور ہر لمحہ حضرت ابراہیم کو اجر وثواب مل رہا ہے۔ سبحان اللہ ! ۔ کیسا عظیم الشان اور بےمثل انعام ہے یہ جس سے حضرت ابراہیم کو نوازا گیا۔ سو کیا شان صدق و اخلاص تھی حضرت ابراہیم کی شان اور کیسی عظیم الشان اور بےمثال نوازش ہے حضرت حق جل مجدہ کی نوازش جس سے وہ اپنے حق تعالیٰ سے اپنے خاص بندوں کو نوازتا ہے ۔ سبحانہ وتعالی ۔ اللہ ہمیں بھی اس سے کسی قدر نواز دے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 346 ظلم باعث محرومی و ہلاکت ۔ والعیاذ باللہ : پس جو ظالم نہیں ہوں گے کہ حق سے منہ موڑیں، ان کو بھی یہ شرف نصیب ہوگا، چناچہ ایسے ہی ہوا کہ آپ کے بعد نبوت و رسالت کے شرف کو آپ کی ذریت و اولاد ہی میں منحصر کردیا گیا، جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَجَعَلْنَا فِِیْ ذُرِّیََّّتِہ النُّبُوََّۃَ وَ الْکِتَابََ } ۔ (العنکبوت : 27) لیکن جو ظالم ہوں گے وہ امامت کے اس منصب جلیل کے اہل نہیں ہوں گے۔ اس لیے ان کو اس سے نہیں نوازا جاسکتا۔ سو ظلم باعث محرومی و ہلاکت ہے، اور ظلم کا معنی ہے حق تلفی، جس کا سب سے بڑا مظہر ہے شرک، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ۔ { ان الشرک لظلم عظیم } ۔ سو اس میں سب لوگوں کے لیے بالعموم اور اہل کتاب کے لیے بالخصوص دعوت و تحریک اور تحضیض و تلقین ہے کہ یہ سب نبی آخر الزمان پر ایمان لائیں جو کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل دونوں کی اولاد میں سے ہیں اور ان کی بعثت و تشریف آوری دعائے ابراہیمی کی برکت اور اس کا ثمرہ ہے۔ سو یہ لوگ اس نبی آخر الزمان پر ایمان لا کر صدق دل سے ان کے پیش فرمودہ دین حق کی تعلیمات مقدسہ پر عمل کریں۔ تاکہ یہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہو سکیں۔
Top