Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 127
وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ١ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَ : اور اِذْ : جب يَرْفَعُ : اٹھاتے تھے اِبْرَاهِيمُ : ابراہیم الْقَوَاعِدَ : بنیادیں مِنَ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کی وَ : اور اِسْمَاعِيلُ : اسماعیل رَبَّنَا : ہمارے رب تَقَبَّلْ : قبول فرما مِنَّا : ہم سے اِنَکَ : بیشک اَنْتَ : تو السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب ابراہیم بنیادیں اٹھا رہے تھے (اللہ کے) اس گھر کی، اور اسماعیل بھی، (اور غایت درجہ عجز و انکساری سے یہ بھی کہتے جا رہے تھے کہ) اے ہمارے رب (اپنے کرم سے) قبول فرما لے ہم سے، (ہماری یہ محنت) بیشک تو ہی سننے والا، جاننے والا،
355 حضرت ابراہیم کے عجزو انکسار اور خلوص و للہیت کا ایک نمونہ : یعنی ہماری یہ محنت و سعی اگرچہ تیرے یہاں قبول فرمائے جانے کے لائق نہیں اے ہمارے رب ! کہ تیری شان بہت ہی بڑی ہے، مگر تو اپنے کرم اور شان رحمت و عنایت سے اسے شرف قبولیت سے نواز دے۔ اور یہ مطلب لفظ " تَقَبَّلَ " سے نکلتا ہے جو کہ باب " تَفَعَّل " سے ہے۔ کیونکہ حضرات علماء و مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جو چیز قابل قبول ہوتی ہے اس کے لئے عموماً قبول یعنی ثلاثی مجرد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، اور جو چیز قبول کرنے کے قابل نہیں ہوتی، اس کے لئے " تقبل " یعنی ثلاثی مزید کا صیغہ استعمال ہوتا ہے، جو کہ تکلف پر دلالت کرتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ ہماری یہ خدمت تیرے حضور شرف قبولیت پانے کے لائق نہیں، مگر تو اے ہمارے مالک ! محض اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول فرما لے، سبحان اللہ ! کیا کہنے ان حضرات انبیائے کرام ۔ علیھم الصلٰوۃ والسلام ۔ کی اس شان عبدیت و تواضع کے، کہ اتنی بڑی اور ایسی بےمثل خدمت کا شرف نصیب ہو رہا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ شان عبدیت و تواضع بھی اس درجہ بڑھی ہوئی ہے، کہ ہر قول و فعل سے عاجزی ہی عاجزی ٹپکتی ہے ۔ صَلَوات اللّٰہ وَسَلاَمُہْ عَلَیُہْم اجمعین ۔ اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو اور اپنی حالت کو دیکھ کر ہم سکتے میں پڑجاتے ہیں، کہ ہم کیا ہیں ؟ کہاں ہیں ؟ کس حال اور کس شمار میں ہیں ؟ اور ہمارا کیا بنے گا ؟ ۔ فَاِیَّاکَ نَسْأَلُ اَللّٰٰہُمَّ الْعَفْوَ والْغُفْرَانَ ۔ وان تسلک بنا الی ما فیہ حبک والرضا یا ذا الجلال والاکرام ۔ 356 اللہ تعالیٰ ہر کسی کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے : کہ تو اے ہمارے خالق ومالک ! دلوں کی نیتوں اور ارادوں تک کو جاننے والا، اور ہر کسی کی دعاء والتجاء کو سننے اور قبول کرنے والا ہے۔ اس بات کو قرآن حکیم میں جگہ جگہ اور طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے، تاکہ یہ حقیقت صادقہ لوگوں کے دلوں میں اتر جائے، ان کے رگ و پے میں پیوست ہوجائے، اور ان کا رخ اور ان کی سمت درست ہوجائے، مگر اس کے باوجود ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا ہے، کہ نہیں صاحب، وہ براہ راست ہماری نہیں سنتا۔ بیچ کے واسطے ضروری ہیں۔ ہماری ان کے آگے اور ان کی ان کے آگے۔ وہ ہماری سنتا نہیں اور ان کی رد کرتا نہیں وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ یہ دونوں مفروضے غلط اور بےبنیاد ہیں، وہ سب کی سنتا ہے اور ہر حال میں سنتا ہے۔ اور کوئی ہستی ایسی نہیں کہ وہ اس کو ماننے پر مجبور کردے۔ اور اس کے یہاں اڑ کر بیٹھ جائے اور منوا کر چھوڑے، جیسا کہ مشرکانہ ذہنیت کے مالک لوگوں کا کہنا اور ماننا ہے۔ وہ اگر نہ مانے تو بڑے بڑے جلیل القدر پیغمبروں کی بات نہ مانے۔ چناچہ اس نے حضرت نوح کی دعا ان کے بیٹے کے حق میں، ابراہیم کی دعاء ان کے باپ آزر کے حق میں اور امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی دعاء آپ کے چچا ابوطالب کے حق میں نہیں مانی، تو پھر اور کون ہوسکتا ہے جو وہاں اڑ کر بیٹھ جائے اور منوا کر چھوڑے ؟ ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔ اور سچی توبہ پر وہ گناہگار کے سب گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس بندے کا کام ہر وقت اس کی طرف رجوع رہنا ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top