Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 128
رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ١۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَاجْعَلْنَا : اور ہمیں بنادے مُسْلِمَيْنِ : فرمانبردار لَکَ : اپنا وَ ۔ مِنْ : اور۔ سے ذُرِّيَّتِنَا : ہماری اولاد أُمَّةً : امت مُسْلِمَةً : فرمانبردار لَکَ : اپنا وَاَرِنَا : اور ہمیں دکھا مَنَاسِکَنَا : حج کے طریقے وَتُبْ : اور توبہ قبول فرما عَلَيْنَا : ہماری اِنَکَ اَنْتَ : بیشک تو التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِيمُ : رحم کرنے والا
اے ہمارے پروردگار، بنا دے ہمیں اپنی فرمانبرداری کرنے والے، اور ہماری نسل میں سے بھی (پیدا فرما) ایک ایسی امت، جو تیری فرمانبردار ہو، اور ہمیں دکھا (اور سکھا) دے طریقے ہماری عبادت کے، اور توجہ فرما ہم پر، بیشک تو ہی ہم سب کی توبہ قبول کرنے والا بڑا ہی مہربان،
357 حضرت ابراہیم کی دعاء امت مسلمہ کیلئے : یعنی ایسی فرمانبردار امت کہ ان کے عقائد بھی صحیح ہوں، اور اعمال و اخلاق بھی درست ہوں، اور وہ سچے دل سے تیرے آگے جھکنے والے ہوں، کہ تیری اطاعت و بندگی اور فرمانبرداری ہی میں بندے کی سعادت اور اس کی کامیابی ہے، ورنہ اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں۔ سو اولاد وہی نعمت ہے جو ایمان و یقین کی دولت سے سرشار اپنے خالق ومالک کے حضور جھکنے والی، اور اس کی اطاعت و بندگی کے شرف سے مشرف ہو ورنہ وہ کس کام کی۔ بلکہ دین و ایمان سے محروم اولاد ۔ والعیاذ باللہ ۔ انسان کیلئے عذاب اور اس کی دشمن ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے اور اہل ایمان کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ { یا ایہا الذین آمنوا ان من ازواجکم واولادکم عدوا لکم فاحذروہم } ۔ (التغابن : 1 14) ۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے دشمنوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔ 358 " اَرِنَا مَنَاسِکَنَا " کا مفہوم و مطلب ؟ : یعنی۔ " اَرِنَا " یہاں پر تعلیم کے معنی میں ہے، اور " مناسک " سے مراد اسلام کے احکام و شرائع ہیں (معالم وغیرہ) ۔ اس میں حج کے مقامات و مواقف بھی آگئے اور دوسرے احکام شرع بھی۔ اس لئے یہ معنی عام اور جامع ہے، جبکہ کچھ حضرات اہل علم نے اس کو حج کے اماکن و ارکان کے ساتھ مختص قرار دیا ہے۔ بہرکیف اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت اور تعلیم و ارشاد ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسان از خود کچھ نہیں کرسکتا۔ اس لیے حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے اپنے رب کے حضور اس کیلئے درخواست کی کہ حق اور ہدایت کا نور اسی وحدہ لاشریک کی طرف سے مل سکتا ہے اس کے علاوہ اور کہیں سے یہ دولت ملنا ممکن نہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین 359 " التّوّاب " کے مبالغے کے اظہار کی دو اہم صورتیں : یعنی ا " لتواب ـ " مبالغے کا صیغہ ہے جس کے معنی کا اظہار دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک اس طرح کہ وہ ہر کسی کی توبہ قبول فرماتا ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو، اور کتنا ہی بڑا گنہگار کیوں نہ ہو، بشرطیکہ توبہ سچی اور صحیح ہو۔ اور دوسرے اس طرح کہ وہ ایسا بڑاتواب اور مہربان ہے کہ سچی توبہ پر وہ زندگی بھر کے تمام گناہوں کو یکمشت مٹا دیتا ہے، اور ایسا کہ ان کا کوئی اثر و نشان بھی باقی نہیں چھوڑتا، کیونکہ گناہ خواہ کتنے ہی بڑے اور کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، اس کی مغفرت و بخشش بہرحال ان سے کہیں بڑھ کر ہے، جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کو طرح طرح سے بیان اور واضح فرمایا گیا ہے، کہ انسان کے گناہ بہرحال محدود ہیں جبکہ اس کی رحمت لامحدود اور ناپیداکنار ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور یہ شان صرف اسی وحدہ لاشریک کی ہے۔ دوسری کوئی ایسی ہستی ہوسکتی ہی نہیں، اس لیے حضرت ابراہیم نے یہاں پر اپنی دعاء میں حصر کا اسلوب اختیار فرمایا کہ { انک انت التواب الرحیم } میں مبتداء و خبر دونوں معرفہ ہیں، اور یہ اسلوب حصر کا فائدہ دیتا ہے، نیز " تب علینا " میں توبہ کے ساتھ " علی " کا صلہ بھی ذکر فرمایا گیا ہے، جو کہ رحمت کیلئے آتا ہے تو اس بناء پر اس کا معنیٰ و مطلب ہوگا کہ تو ہم پر رحمت کے ساتھ رجوع فرما۔ سو یہ ایک عظیم الشان دعا ہے جو بندے کو ہمیشہ اپنے رب کے حضور کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ توفیق بخشے اور ہمیشہ اپنی رحمت و عنایت سے نوازے اور سرفراز فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
Top