Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 128
رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ١۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَاجْعَلْنَا : اور ہمیں بنادے مُسْلِمَيْنِ : فرمانبردار لَکَ : اپنا وَ ۔ مِنْ : اور۔ سے ذُرِّيَّتِنَا : ہماری اولاد أُمَّةً : امت مُسْلِمَةً : فرمانبردار لَکَ : اپنا وَاَرِنَا : اور ہمیں دکھا مَنَاسِکَنَا : حج کے طریقے وَتُبْ : اور توبہ قبول فرما عَلَيْنَا : ہماری اِنَکَ اَنْتَ : بیشک تو التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِيمُ : رحم کرنے والا
اے ہمارے رب ہم دونوں کو تو اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری ذریت میں سے تو اپنی ایک فرمانبردار امت اٹھا اور ہمیں ہمارے عبادت کے طریقے بتا اور ہماری توبہ قبول فرما۔ بیشک تو توبہ قبول کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔
دعا کی وضاحت : دعا کے بیچ بیچ میں بار بار“ ربنا ”کا اعادہ اور دعا کے مناسب صفاتِ الٰہی کا حوالہ دعا کے آداب میں سے ہے۔ اس سے دعا شرفِ قبولیت حاصل کرتی ہے۔ یہ دعا ان دونوں چیزوں کے حکیمانہ استعمال کی بہترین مثال ہے۔ سب سے پہلے باپ بیٹے نے جس چیز کی دعا کی ہے وہ خود اپنے مسلم بنائے جانے کی ہے۔ مسلم کے معنی خدا کے کامل فرمانبردار کے ہیں۔ اس سے کئی حقیقتیں روشنی میں آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایمان و اسلام اور طلب خشیت وتقوی کی دعاؤں میں انسان سب سے پہلے اپنے آپ کو سامنے رکھے، یہ چیزیں ایسی نہیں جن سے کوئی بھی مستغنی ہوسکے اگرچہ وہ کتنا ہی عالی مقام ہو۔ دوسری یہ کہ اسلام کے درجات و مراتب کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل جیسے مسلم کامل بھی جن کے ذریعہ سے دنیا اسلام کے نام اور اس کی روح سے آشنا ہوئی اپنے مسلم بنائے جانے کے لیے دعا کرتے تھے، تیسری حقیقت، جو خاص اس موقع سے تعلق رکھنے والی اور نظم کلام کو کھولنے والی ہے، یہ ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے اپنی زندگی کے سب سے زیادہ تاریخی موقع پر، جب کہ وہ اپنے مشن کا مرکز تعمیر کر رہے تھے، اپنے لیے جس چیز کی دعا کی تھی، مسلم بنائے جانے کی تھی نہ کہ یہودی یا نصرانی بنائے جانے کی۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ : اپنے مسلم بنائے جانے کی دعا کے ساتھ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے اپنی ذریت کے اندر سے ایک پوری امت مسلمہ اٹھائے جانے کی بھی اس موقع پر دعا فرمائی اس دعا میں چونکہ حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ ان کی ذریت میں سے صرف حضرت اسماعیل شریک تھے۔ اس وجہ سے اس کا واضح مفہوم یہی ہوسکتا ہے کہ یہ انہی کی اولاد سے متعلق تھی چناچہ انہی کی نسل کے اندر محمد بن عبداللہ ﷺ کا ظہور ہوا اور آپ کی دعوت سے وہ امت مسلمہ ظہور میں آئی جس کے لیے یہ دعا کی گئی تھی۔ تورات سے یہ چیزیں تو غائب کردی گئیں لیکن قربان ہونے والے فرزند سے متعلق یہ پیشین گوئی موجود ہے کہ“ تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی ”۔ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا :“ ارنا ”کے اصل معنی“ ہمیں دکھا ”کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین اور اپنی شریعت کی طرف اپنے بندوں کی رہنمائی اس طرح کی وحی کے ذریعہ سے بھی کرتا ہے جس کا مظہر قرآن مجید ہے اور کبھی رویا یا کشف میں برارہ راست اپنا کوئی فرشتہ بھیج کر اس کام کو عملاً دکھا یا بتا بھی دیتا ہے جو مطلوب ہوتا ہے۔ اس سم کی رہنمائی قرآن مجید کی اصطلاح میں اراءت ہے۔ آنحضرت ﷺ سے پہلے جو انبیاء تشریف لائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی رہنمائی زیادہ تر اراءت ہی کے ذریعہ سے ہوتی تھی۔ یعنی یا تو رویا میں ان کو ایک بات دکھا دی جاتی تھی یا کوئی فرشتہ خداوندی ظاہر ہو کر مطلوب کام کی طرف رہنمائی کردیتا تھا۔ تورات سے اس کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ یہاں دعا میں حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل نے اسی اراءت کی درخواست کی ہے۔ مناسک کی تحقیق : مناسک، منسک کی جعم ہے، نسک کے اصل معنی دھونے اور پاک کرنے کے ہیں۔ نسک الثوب کے معنی ہیں کپڑے کو دھو کر پاک کیا۔ اسی سے سنسک ہے جس کے معنی قربانی کے ہیں۔ ربانی بندے کو گناہ کی آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک کر کے اللہ تعالیٰ کا تقرب عطا کرتی ہے۔ پھر اسی سے منسک ہے، جس کے معنی قربانی کے طریقہ کے بھی ہیں اور قربان گاہ کے بھی۔ اس کی جمع مناسک ہے جو حج کے تمام سلسلہ عبادات و رماسم پر حاوی ہے۔ فرمایا ہے“ فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّہ۔ جب تم حج کے مراسم ادا کرچکو تو اللہ کو یاد کرو ”(بقرہ : 200)۔ وَتُبْ عَلَيْنَا :‘ توبہ ’ کا مفہوم : توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے اور متوجہ ہونے کے ہیں اس کا صلہ جب علی کے ساستھ آتا ہے تو یہ جیسا کہ آیت 37 کی وضاحت کرتے ہوئے ہم بیان کرچکے ہیں، اس بات پر دلیل ہوتا ہے کہ اس کے اندر رحم کا مضمون پوشیدہ ہے۔ رحم کے اس پوشیدہ مضمون کو یہاں“ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ”کہہ کر کھول بھی دیا ہے۔ بندہ جب اپنے رب کی طرف خشیت کے ساتھ رجوع کرتا ہے تو رب رحیم رحمت کے ساتھ بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
Top