Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 131
اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسْلِمْ١ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
اِذْ قَالَ : جب کہا لَهُ : اس کو رَبُّهُ : اس کا رب اَسْلِمْ : تو سر جھکا دے قَالَ : اس نے کہا اَسْلَمْتُ : میں نے سر جھکا دیا لِرَبِّ : رب کے لئے الْعَالَمِينَ : تمام جہان
(یاد کرو اس کہ شان عبدیت کو کہ) جب کہا اس سے اس کے رب نے حوالے کردو تم (اپنے آپ کو اپنے رب کے) تو اس نے (فوراً ) عرض کیا کہ میں نے سپرد کردیا اپنے آپ کو پروردگار عالم کے،
365 حضرت ابراہیم کی شان تسلیم و رضا کا ایک مظہر و نمونہ : کہ جب ان سے ان کے رب نے فرمایا کہ تم فرمانبردار ہوجاؤ تو حضرت ابراہیم نے عرض کیا کہ میں نے اپنے آپ کو سپرد کردیا پروردگار عالم کے۔ پس میرا جسم و جان سب کچھ میرے خالق ومالک کے حوالے ہے جس نے مجھے وجود بخشا اور ہر طرح کی عنایات سے نوازا اور سرفراز فرمایا۔ اور یہی مدعا و مفہوم ہے اسلام کا کہ اس کے لغوی معنی آتے ہیں " سپردن " یعنی حوالے کردینا۔ سو یہیں سے ملت ابراہیمی کی تعیین و تشریح بھی ہوگئی کہ اس سے مراد اسلام ہی ہے جو کہ اللہ پاک ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کا پسندیدہ، پاکیزہ اور ایک ہی دین حق ہے۔ اور تمام انبیاء اور رسل ۔ علیھم الصلوۃ والسلام ۔ نے ہمیشہ اسی کی تعلیم و تبلیغ فرمائی۔ اور دنیا کو اسی کی دعوت دی۔ اس لئے یہاں سے اس پارہ کے خاتمے تک اسی سے متعلق ارشادات فرمائے جاتے ہیں، کہ یہی ملت حنیفہ دارین کی سعادت و سرخروئی کی کفیل وضامن ہے، اور اس سے محرومی دنیا و آخرت کی ہر خیر سے محرومی ہے۔ کیونکہ اس سے محرومی کی صورت میں انسان راہ حق سے محروم اپنے مقصد حیات سے غافل اور اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے جو کہ خساروں کا خسارہ ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العلی العظیم۔
Top