Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
اے لوگوں بندگی کرو تم سب اپنے اس رب (وحدہ لاشریک) کی جس نے پیدا فرمایا تم سب کو بھی (اپنی قدرت بےنہایت اور رحمت بےغایت سے) اور ان کو بھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں1 تاکہ تم پرہیزگار بن سکو،
54 معبود برحق صرف اللہ وحدہ لا شریک ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ : سو رب کی ربوبیّت کا تقاضا ہے کہ ہر قسم کی عبادت و بندگی صرف اسی وحدہ لاشریک کی ہو : یعنی وہ چونکہ تم سب کا رب ہے اس لیے اس کی اس ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ عبادت و بندگی اسی کی اور صرف اسی کی کرو، اور اپنے رب کی اس بندگی میں خود تمہارا ہی بھلا اور فائدہ ہے، اس لئے وہ تم لوگوں کو اس کا حکم و ارشاد فرماتا ہے تاکہ خود تمہارا بھلا ہو، ورنہ وہ تو ہر طرح سے اور ہر کسی سے غنی اور بےنیاز ہے سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور جب پیدا کرنے والا سب کا وہی ہے۔ تم لوگوں کو بھی اسی نے پیدا کیا جو بالفعل موجود ہو اور ان سب کو بھی جو کہ تم سے پہلے گزر چکے ہیں تو پھر معبود اس کی سوا اور کون ہوسکتا ہے۔ اور جب اس کی اس صفت تخلیق میں کوئی اس کا شریک نہیں تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک آخر کس طرح ہوسکتا ہے ؟ سو جو اس پوری کائنات اور تمام انسانوں کا بلا شرکت غیرے خالق ومالک، اور اس میں حاکم و متصرف ہے وہی معبود ہے اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا حق ہے، جیسا کہ اگلے حاشیے میں زیادہ تفصیل سے آ رہا ہے۔ پس اس کے سوا اور کسی کی عبادت و بندگی ظلم عظیم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 55 ہر قسم کی عبادت اللہ ہی کا حق : سو عبادت کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اللہ وحدہ لاشریک ہی کا حق ہے کہ جب معبود برحق وہی وحدہ لاشریک ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ عبادت و بندگی خواہ وہ کسی بھی طرح کی ہو، اور کسی بھی شکل میں ہو، وہ اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے، کہ معبود برحق بہرحال وہی اور صرف وہی وحدہ لاشریک ہے، اس کے سوا کسی کے لئے بھی عبادت کی کوئی بھی شکل بجا لانا شرک ہوگا، جو کہ ظلم عظیم ہے، اور جو کہ ناقابل معافی جرم ہے، کہ یہ بغاوت ہے جس کی معافی سچی توبہ اور " اِقْلاَع عَن الشِّرْکِ " کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ پس دست بستہ قیام۔ جیسا کہ قیام صلوٰۃ میں ہوتا ہے۔ اسی کے لئے، رکوع و سجود اسی کے لئے، نذر و نیاز اسی کے لئے، طواف و چکر اسی کے لئے، غائبانہ حاجت روائی اور مشکل کشائی اسی کی شان، اور اسی کے لئے، پکارنے بلانے کے لائق بھی وہی اور صرف وہی وحدہ لاشریک ہے، ان میں سے کوئی بھی چیز اگر کسی اور کے لئے کی گئی تو یہ شرکیہ حرکت ہوگی۔ وَالْعِیَاذ باللَّہ ۔ مگر افسوس، کہ اس کے باوجود آج کتنے ہی نام نہاد اور جہالت کے مارے سادہ لوح مسلمان ایسے ہیں جو عبادت کی تقریباً یہ ساری ہی شکلیں غیروں کے لئے بجا لاتے ہیں، وہ قبروں اور آستانوں کے سامنے دست بستہ جھک کر کھڑے ہوتے، وہاں کے پھیرے لگاتے، فوت شدہ ہستیوں کو حاجت روائی و مشکل کشائی کے لئے بلاتے پکارتے، " یا علی مدد "، " یا غوث دستگیر "، " بہاء الحق بیڑا دھک "، وغیرہ وغیرہ جیسے شرکیہ نعرے لگاتے، اور مشرکانہ راگ الاپتے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ لوگ ایمان و اسلام کا دعوی بھی کرتے ہیں، اور توحید کا دم بھی بھرتے، اور زعم رکھتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ پھر شرک اور کس بلا کا نام ہے ؟ جبکہ نبی امّی ۔ فِدَاہُ لَحْمِیْ وَدَمِیْ ۔ کی تعلیم اور آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ یہ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا " مَاشَائَ اللّٰہُ وَشِئْتَ "۔ " جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں " تو آپ ﷺ نے اس پر غصہ ہو کر اس شخص سے فرمایا " اَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہ نِدًّا ؟ قُلْ مَا شَائَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ "، " یعنی کیا تم نے مجھے اللہ کا شریک بنادیا ؟ کہو " مَاشَائَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ " یعنی " جو صرف اللہ چاہے "، (اخرجہ النسائی و ابن ماجہ والبخاری فی الادب المفرد، و غیرہٗ ابن کثیر ج، ص 00 1، طبع دار الاندلس بیروت) سو کہاں دین حق کی یہ تعلیمات اور نبی اکرم ﷺ کی یہ تنبیہات و ارشادات، اور کہاں امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد کی یہ شرکیات، جن کا قدرے تذکرہ ابھی اوپر کیا گیا ہے ؟ اس صورت حال میں اگر کوئی دل درد مند خون کے آنسو نہ بہائے تو اور کیا کرے ؟ اور ستم بالائے ستم یہ کہ کتنے ہی اصحاب جبہ و دستار ایسے ہیں جو جہالت کے مارے ان سادہ لوح مسلمانوں کی اصلاح کرنے کی بجائے الٹا ان شرکیات پر ان کی پیٹھ ٹھونکتے، اور ان کو دین حق کا تقاضا بتاتے ہیں، ان کے جواز کے لئے طرح طرح کے سہارے ڈھونڈتے، حیلے بہانے تلاش کرتے، اور نصوص قرآن و سنت کو تاویل و تحریف کے خراد پر چڑھا کر انہیں اپنی اہواء و اغراض کے مطابق ڈھالنے کی جسارت کرتے ہیں، اور ان سے نت نئے معانی نکالتے اور اہل حق کو طرح طرح سے مطعون کرتے، اور جاہلوں کو ان کی جہالت پر اور پکا کرتے ہیں، اور وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس طرح وہ خود اپنی جانوں پر کتنا ستم ڈھا رہے ہیں ؟ ۔ فَاِلَی اللّٰہ الْمُشْتَکٰی ۔ وَہُوَ الْمُسْتَعَانُ ، وَعَلَیْہ التُّکْلانُ ۔ 56 خالق سب کا اللہ وحدہ لا شریک ہی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جس نے پیدا فرمایا تم سب کو بھی اور ان سب کو بھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ خالق سب کا بہرحال وہی وحدہ لا شریک ہے۔ اور جو خالق ومالک ہے وہی معبود برحق ہے۔ پس جب خالق ومالک تم سب کا وہی وحدہ لاشریک ہے، تو پھر عبادت و بندگی کا مستحق دوسرا کوئی آخر کس طرح ہوسکتا ہے ؟ اور جب تخلیق و ایجاد کی نعمت جو کہ دوسری تمام نعمتوں کی اصل و اساس ہے، اس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے تو پھر عبادت و بندگی کے حق میں کوئی اس کا شریک کیسے ہوسکتا ہے ؟ پس معبود برحق وہی اور صرف وحدہ لاشریک ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور عبادت کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی کا حق اور اسی کا اختصاص ہے ۔ جل جلالہ و عم نوالہ ۔ خواہ وہ کوئی بدنی عبادت ہو یا مالی، قولی عبادت یا فعلی، قلبی ہو یا قالبی، وہ سب اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے۔ اس کے سوا کسی بھی اور کے لیے عبادت کی کوئی بھی قسم بجا لانا شرک ہے، جو کہ ظلم عظیم ہے۔ لیکن افسوس کہ کتنے ہی جاہل مسلمان ہیں کہ اس شرک میں مبتلا ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 57 ثمرہ عبادت کا ذکر وبیان : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ عبادت کا نتیجہ وثمرہ تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔ یعنی تم اپنے اس خالق ومالک وحدہ لاشریک کی عبادت کرو، جس کی یہ اور یہ صفات ہیں، اور اس طرح تم دنیا میں اس کی معصیت و نافرمانی سے بچو، تاکہ اس کے نتیجے میں آخرت میں اس کے عتاب و عذاب سے بچ سکو، کیونکہ آخرت کا وہ عذاب دراصل ایک طبعی اثر و نتیجہ ہوگا دنیا کے کفر و شرک اور ان معاصی وذنوب کا، جن کا ارتکاب انسان اپنی اس دنیوی زندگی میں کرتا ہے، سو یہاں پر اور اس دنیاوی زندگی میں کفر و شرک اور معاصی وذنوب سے بچنا، وہاں کے دوزخ اور اس کے عذاب سے بچنا ہے، والعیاذ باللہ جل وعلا۔ سو اس سے عبادت خداوندی کے ثمرہ و نتیجہ کو بیان فرما دیا کیا ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید۔
Top