Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِکَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّا : سوائے اِبْلِیْسَ : ابلیس اَبٰى : اس نے انکار کیا وَ اسْتَكْبَرَ : اور تکبر کیا وَکَانَ : اور ہوگیا مِنَ الْکَافِرِیْنَ : کافروں سے
اور (وہ بھی یاد کرو) کہ جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم سجدہ کرو آدم کو تو وہ سب سجدے میں گرپڑے بجز ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہوا اور وہ (علم الہی میں) پہلے سے ہی کافروں میں سے تھا
106 فرشتوں کو آدم کے آگے سجدہ کرنے کا حکم و ارشاد : یعنی تم ان کو سجدہ کرو ان کی تعظیم و تکریم کے لئے، ان کے اس علم کی بنا ئِ ، پر، جس سے ان کی فضیلت اور فوقیت تم پر ظاہر ہوچکی ہے۔ سو اس سے واضح ہوگیا کہ اصل شرف اور تفوق کا مدار علم پر ہے، نہ کہ محض عبادت پر (تفسیر التحریر والتنویر لابن عاشور (رح) ) اس طرح یہ سجود ایک طرف تو حضرت آدم کے استحقاق خلافت و نیابت کا اقرار و اعتراف تھا۔ اور دوسری طرف یہ در اصل اس بات کا عہد و اقرار بھی تھا کہ مہمات خلافت اور فرائض نیابت کی انجام دہی میں، فرشتے حضرت آدم کی معاونت و مساعدت کریں گے۔ اس طرح یہ سجدہ جو کہ حضرت حق جل مجدہ ہی کے حکم صریح کی تعمیل و بجاآوری کے لئے تھا، اور ان خاص حکم و مصالح کی بناء پر تھا، جن کا علم و احاطہ اللہ تعالیٰ ہی کو ہوسکتا ہے، اسکا حکم و جواز اسی وقت کے لئے تھا اور بس۔ ورنہ اصل یہی ہے کہ سجدہ خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ہو اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے، اس کے علاوہ کسی اور کیلئے یہ نہ کبھی جائز تھا نہ جائز ہے۔ سابقہ شریعتوں میں بھی جن دوسری صورتوں میں کہیں یہ پایا گیا۔ وہ محض استثنائی حالات کے اعتبار سے تھا، ورنہ انتہائی عاجزی کے اس مظہر یعنی سجدے کا یہ عمل صرف اور صرف اسی ذات و حدہ لا شریک کا حق ہے، جو سب سے بڑی، اور تمام عظمتوں کی مالک و مستحق ذات ہے، یعنی اللہ رب العزت سبحانہ و تعالیٰ ۔ اسی لئے شریعت اسلامیہ جو کہ گزشتہ تمام شرائع سماویہ کی مکمل اور ان کی ناسخ ہے، اس میں جا بجا اور طرح طرح سے اس امر کی تصریح و تاکید فرمائی گئی ہے کہ اب سجدہ اللہ کے سوا کسی کے لئے بھی جائز نہیں، خواہ وہ کسی بھی نوعیت و شکل کا سجدہ ہو۔ پس جو کوئی اللہ کے سوا کسی اور کیلئے سجدہ کرے گا وہ ایک امر حرام اور شرک کا ارتکاب کرے گا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 107 استکبار باعث محرومی و ہلاکت، والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ " اِستکبار " یعنی اپنی بڑائی کا گھمنڈ ہلاکت و تباہی کا باعث۔ والعیاذ باللہ ۔ سو شیطان نے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں سجدہ کرنے سے انکار کرکے ہلاکت کی راہ کو اپنایا اور اپنی برائی کے اس گھمنڈ کی وجہ سے اس نے سجدے سے انکار کردیا، کہ میں اپنی اصل کے اعتبار سے جو کہ آگ ہے، افضل اور بہتر ہوں آدم سے، جو کہ مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ تو پھر میں اس کو سجدہ کیوں کر کروں، جیسا کہ دوسرے مقامات پر اس کی تصریح موجود ہے، مثلاً سورة اعراف میں اس لعین کی اس سخن سازی اور منطق بازی کا ذکر اس طرح فرمایا گیا ہے { قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہُ مِنْ طِیْنٍ } (الاعراف : 12) حالانکہ اس ملعون کے اس مفروضے کے مقدمات اور صغرے کبرے سب ہی غلط اور سرے سے بےبنیاد ہیں۔ ۔ وَالتَّفْصِیْلُ فِی الْمُطَوَّلات ۔ اگر حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے توفیق و عنایت شامل حال رہی، اور حیات مستعار نے وفا کی تو انشاء اللہ اپنی مفصل تفسیر میں اس پر دل کھول کر لکھیں گے۔ اب تو مقصد اختصار کے پیش نظر، قلم کو رہ رہ کر روکنا پڑتا ہے ۔ اللہ کرے وہ وقت بھی جلد نصیب ہو جبکہ قلم کا یہ رہوارکھلے میدان میں اپنی خواہش ومرضی کے مطابق کھلا چلے، مگر حق و صداقت کی حدود کے اندر، کھلا اور جیسے چاہے چلے۔ وَمَا ذٰالِکَ عَلَی اللّٰہ بِعَزِیْزِ ۔ وَھُوَ عَلٰی کُلّ شَیْئٍ قَدِیْرِ ۔ سُبْحَانَہُ وَتَعَالیٰ ۔ حضرت حق جل جلالہ کے حضور اور اس کے صریح حکم و ارشاد سے اس کی سرتابی میں ابلیس لعین کی اس منطق بازی سے یہ بھی عیاں ہوگیا کہ حق سے منہ موڑ کر محض اپنی نسلی اور خلقی و فطری اصلیت اور عصبیت کی بنا پر اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھنا، محض شیطانی دھوکہ، اور ابلیسی فریب، اور دجل وتلبیس ہے، جس نے دنیا میں ہمیشہ ہولناک تباہیوں کو جنم دیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ جس کی آج کی تازہ مثال مغربی اقوام اور خاص کر سرب قوم کی وہ ننگی جارحیت اور کھلم کھلا بربریت ہے، جو وہ قلب یورپ میں واقع چھوٹے سے مسلمان ملک بوسنیا ہر زگوینا پر گزشتہ تین سال سے علی الاعلان جاری رکھے ہوئے ہے، اور جسکے دوران لاکھوں بےگناہ مسلمانوں کے خون سے مسلسل ہولی کھیلی گئی اور لگاتار کھیلی جاری ہے۔ اور قصور ان کا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ مسلمان ہیں، مگر سربی قوم کے درندے ہیں کہ قومیت کے جھوٹے گھمنڈ اور زعم میں چور اپنے لئے نار دوزخ کا زیادہ سے زیادہ سامان کرنے اور ایندھن جمع کرنے میں دن رات مصروف ہیں، اور ان نہتے مسلمانوں پر وہ ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہے ہیں ۔ فَاِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا الَیْہ رَاجِعُوْنَ ۔ اَللّٰہُمَّ أْجُرْنَا فِیْ مُصِیْبَتِنَا وَاخْلِفْ لَنَا خَیْرًا مِّنْہَا ۔ اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِہِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِہِمْ- 108 ابلیس کے چھپے کفر کا اظہار : یعنی اس کے کفر کا ظہور اگرچہ اب اور اس خاص موقع پر ہوا مگر وہ تھا پہلے ہی سے کافر، جو کہ حضرت حق جل جلالہ کے علم میں تھا۔ پس اس صورت میں " کان " یہاں اپنے ظاہر پر ہے، اور یہی جمہور کی رائے ہے ۔ " وَالْجَمْہُوْرُ عَلٰی أَنَّ الْمَعْنٰی وَکَانَ فِیْ عِلْم اللّٰہ مِنَ الْکَافِرِیْنَ " ۔ (تفسیر المنار) اور بعض حضرات مفسرین نے یہاں پر " کان " کو " صار " کے معنی میں لیا ہے، یعنی یہ کہ وہ لعین اپنے اس انکار واستکبار کی بنا پر کافروں میں سے ہوگیا، مگر ابن فورک وغیرہ نے اس کو خطاء قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بات اصول و ضوابط کے خلاف ہے (نفس المرجع) ۔ لیکن جمہور اہل علم سے بہرکیف یہ دونوں مطلب مروی و منقول ہیں اور وہ اس کے معنیٰ و مطلب کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں ۔ " وکان فی سابق علمہ او صار من الکافرین " ۔ ( محاسن التاویل للقاسمی ) ۔ بہرکیف اس ملعون کے کفر کا ظہور اس موقع پر ہوا جبکہ اس نے حکم خداوندی کو ماننے اور اس کے آگے جھکنے سے انکار کیا۔ اور مزید یہ کہ اس نے اپنے تمرد اور سرکشی کو حکم خداوندی کی تعمیل سے بہتر سمجھا جو کہ کفر بالائے کفر ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top