Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 78
وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں أُمِّيُّوْنَ : ان پڑھ لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے الْكِتَابَ : کتاب اِلَّا اَمَانِيَّ : سوائے آرزوئیں وَاِنْ هُمْ : اور نہیں وہ اِلَّا : مگر يَظُنُّوْنَ : گمان سے کام لیتے ہیں
اور ان میں سے کچھ ایسے امی (اور ان پڑھ) ہیں جو کتاب کو نہیں جانتے سوائے کچھ (بےبنیاد) امیدوں (اور آرزوؤں) کے، اور یہ لوگ محض ظن (وتخمین) پر چلے جا رہے ہیں،
223 یہود کی اپنی خود ساختہ امیدوں اور آرزوؤں کی پیروی : ـ مثلاً یہ کہ ہم اللہ کے بیٹے اور پیارے ہیں ۔ { نَحْنُ اَبْنَائُ اللّٰہ وَ اَحِبَّائُ ہ } ۔ نبیوں کی اولاد اور صاحبزادے ہیں، جو کچھ کرتے جائیں نہ ہماری کوئی پکڑ ہونی ہے، اور نہ ہمیں کوئی سزا ملنی ہے، اور اگر کوئی سزا ملی بھی تو محض گنتی کے کچھ دنوں کیلئے ۔ { اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ } ۔ تک ہوگی اور بس۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور قریب قریب یہی حال آج کے بہت سے جاہل مسلمانوں، اہل ھوی اور اصحاب زیع و ضلال کا ہے، وہ بھی اسی طرح کی " امانی " اور خود ساختہ امیدوں اور آرزوؤں کی بھول بھلیوں میں پڑے ہیں، ان میں بھی کتنی ہی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کو نہ اپنے دین کی مقدس تعلیمات کا کچھ پتہ، نہ اپنے فرائض و ذمہ داری سے آگہی، نہ عقائد کا علم، اور نہ اسلامی اخلاق کی خبر، بس کچھ رسوم و تقالید ہیں، جن پر یہ لوگ مست و مگن ہیں، اور کچھ مفروضے ہیں جن پر انہوں نے تکیہ اور آسرا کر رکھا ہے مثلاً یہ کہ ہم سید اور سید زادے ہیں۔ فلاں " گدی " اور دربار کے ملنگ اور مجاور ہیں۔ " نوری " اور " نورانی " ہیں۔ سگ درگہ فلاں اور فلاں حضرت کے تعلقدار ہیں وغیرہ وغیرہ۔ نہ نماز کی پروا نہ روزے کی فکر۔ نہ حلال و حرام کی تمیز نہ قرآن کی تعلیم سے آگہی اور نہ حدیث رسول سے شناسائی ۔ اِلاَّمَاشَائَ اللّٰہ ۔ ان میں سے بعض تو صاف صاف کہہ دیتے ہیں کہ صاحب ہم نے تو فلاں ہستی کا لڑ پکڑ رکھا ہے۔ بس وہی ہمیں کافی ہیں۔ ان ہی کو خوش رکھنا ہمارا کام ہے۔ وہ ہمارا تمام کام خود بنا دینگے۔ جہاں سے اونٹ گزرتا ہے اس کی دم بھی اس کے ساتھ گزر جاتی ہے۔ ہماری ان کے آگے اور ان کی ان کے آگے۔ وہ ہماری سنتا نہیں اور ان کی رد نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ۔ سو ایسے لوگ اسی طرح کی فلسفہ طرازیوں میں الجھے رہتے ہیں، اور اسی طرح کی سخن سازیوں میں مست و مگن رہتے ہیں ۔ تَشَابَہَتْ قُلُوْبُہُمْ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ ۔ سو قرآن حکیم ایسے لوگوں کو طرح طرح سے جھنجھوڑتا اور خبردار کرتا ہے کہ اس طرح کی خود ساختہ آرزوؤں سے کچھ نہیں بنتا، یہ سب کچھ نفس و شیطان کا دھوکہ ہے، ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کام آنے والی چیز بہرحال انسان کا اپنا عقیدہ و عمل ہے اور بس ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید ۔ 224 یہودیوں کی ظن وتخمین کی پیروی اور اس کے شاخسانے : حالانکہ ظن وتخمین کی پیروی راہ حق میں کچھ کام آنے والی نہیں ۔ { وَاِنَّ الظَّنَّ لاَ یُغْنِیْ مِنَ الْحَقّ شَیْئًا } ۔ مگر یہ لوگ اپنی متاع عمر اور فرصت حیات کو اسی طرح ضائع کرتے جارہے ہیں، اور کل جب فیصلہ کے اس مقام پر پہنچیں گے تو ان کے پاس کچھ نہیں ہوگا۔ تب یہ افسوس کے مارے اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائینگے مگر عمر محدود اور فرصت عمل کی اپنی پونجی لٹا دینے کے بعد بےوقت کے اس افسوس سے ان کو حسرت و یاس میں اضافے کے سوا اور حاصل کچھ نہیں ہو سکے گا۔ یہی وہ سب سے بڑا اور ہولناک خسارہ ہے، جس کی تلافی ممکن نہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ایسے میں قرآن حکیم کا دنیا پر یہ کس قدر بڑا احسان ہے کہ وہ ان کو بار بار اور طرح طرح سے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر حق و ہدایت کی دعوت دیتا ہے، تاکہ خود ان کا بھلا ہو ۔ فالحمدللہ رب العالمین ۔ اللہ تعالیٰ آخرت کی تیاری اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین۔ بہرکیف یہودیوں نے اللہ کے کلام کو تحریف کے خراد پر چڑھا کر ایسا اور اس حد تک بدل دیا تھا کہ وہ کچھ کا کچھ ہو کر رہ گیا تھا۔ یہاں تک یہ بدبخت نور حق و ہدایت سے محروم ہو کر طرح طرح کے اندھیرے میں ڈوب گئے تھے اور اوہام و ظنون کے ایک خود ساختہ گورکھ دھندے میں الجھ کر اور پھنس کر رہ گئے تھے۔ مثلا یہ کہ جنت میں یہود اور نصاریٰ کے سوا کوئی داخل ہی نہیں ہو سکے گا۔ اور یہ کہ دوزخ کی آگ ہمیں چھوئے گی بھی نہیں سوائے گنتی کے کچھ دنوں کے۔ اور اس طرح یہ لوگ محروم سے محروم تر ہوتے چلے گئے ان کو احساس و شعور بھی نہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top