Kashf-ur-Rahman - Al-Anfaal : 75
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰٓئِكَ مِنْكُمْ١ؕ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مِنْۢ بَعْدُ : اس کے بعد وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور انہوں نے جہاد کیا مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ فَاُولٰٓئِكَ : پس وہی لوگ مِنْكُمْ : تم میں سے وَاُولُوا الْاَرْحَامِ : اور قرابت دار بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اَوْلٰى : قریب (زیادہ حقدار) بِبَعْضٍ : بعض (دوسرے) کے فِيْ : میں (رو سے) كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کرتے رہے۔ وہ بھی تم ہی میں سے ہیں۔ اور رشتہ دار خدا کے حکم کے رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے۔
خونی رشتے اور وراثت قول باری ہے (و اولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ، مگر اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں) اس آیت کے ذریعے ہجرت، حلف اور موالات کی بنا پر توارث کے ایجاب کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اس میں عصبات اور غیر غصبات کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ اس میں ایسے ذوی الارحام کی میراث کے اثبات کی حجت اور دلیل موجود ہے جن کے لئے آیت میراث میں کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی وہ عصبات کے ذیل میں آت ہیں۔ ہم نے سورة نساء میں اس کا ذکر کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا مسلک یہ ہے کہ ذوی الارحام مولیٰ عتاقہ سے بڑھ کر میراث کے حقدار ہوتے ہیں۔ انہوں نے ظاہر آیت سے استدلال کیا ہے، لیکن دوسرے تمام صحابہ کرام کا یہ مسلک نہیں ہے۔ ولاء میں وراثت ایک روایت کے مطابق حضرت حمزہ ؓ کی بیٹی نے ایک غلام آزاد کردیا تھا، اس کا انتقال ہوگیا اور اس کے پیچھے ایک بیٹی رہ گئی۔ حضور ﷺ نے اس کا آدھا ترکہ اس کی بیٹی کو اور آدھا حضرت حمزہ ؓ کی بیٹی کو ولایت کی بنا پردے دیا، گویا آپ نے حضرت حمزہ ؓ کی بیٹی کو عصبہ قرار دیا اور عصبہ ذوی الارحام سے بڑھ کر میراث کا مستحق ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (الولاء لحمۃ کلحمۃ النسب لا تباع ولا توھب۔ ولاء نسب کی طرح گوشت کا ایک ٹکڑا ہے زاے فروخت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بطور ہبہ کسی کو دیا جاسکتا) قول باری (فی کتاب اللہ) کی دو توجیہیں کی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ” لوح محفوظ ہیں “ جس طرح یہ ارشاد باری ہے (ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتاب من قبل ان نبرھا کوئی سی کبھی مصیبت نہ دنیا میں آتی ہے اور نہ خاص تمہاری جانوں میں مگر یہ کہ سب ایک رجسٹر میں لکھی ہیں قبل اس کے کہ ہم ان جانوں کو پیدا کریں ض دوسری یہ کہ اللہ عاتیٰ کے حکم میں “۔ اختتام سورة انفال۔
Top