Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 47
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَا١ؕ وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ
وَنَضَعُ : اور ہم رکھیں گے (قائم کرینگے) الْمَوَازِيْنَ : ترازو۔ میزان الْقِسْطَ : انصاف لِيَوْمِ : دن الْقِيٰمَةِ : قیامت فَلَا تُظْلَمُ : تو نہ ظلم کیا جائے گا نَفْسٌ : کسی شخص پر شَيْئًا : کچھ بھی وَ اِنْ : اور اگر كَانَ : ہوگا مِثْقَالَ : وزان۔ برابر حَبَّةٍ : ایک دانہ مِّنْ خَرْدَلٍ : رائی سے۔ کا اَتَيْنَا بِهَا : ہم اسے لے آئیں گے وَكَفٰى : اور کافی بِنَا : ہم حٰسِبِيْنَ : حساب لینے والے
اور ہم قیامت کے روز انصاف کے ایسے ترازو رکھیں گے کہ کسی بھی جان پر ذرہ برابر کوئی ظلم نہیں ہونے پائے گا اور اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کسی کا کوئی عمل ہوگا تو ہم اس کو بھی لا حاضر کریں گے اور ہم کافی ہیں حساب لگانے والے۔1
65 قیامت کا قیام ظہور عدل کے لیے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " قیامت کے روز کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا " کہ نہ کسی کی کوئی نیکی کم کی جائے گی اور نہ کسی کے کھاتے میں کوئی ناکردہ برائی ڈالی جائے گی۔ بلکہ صحیح صحیح اور پورا پورا انصاف کیا جائے گا۔ اور ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا ۔ { وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظُلَمُوْنَ } ۔ (آل عمران : 25) ۔ پس ہر کوئی اپنے بارے میں خود جائزہ لے اور دیکھ لے کہ اس نے کل کے اس یوم حساب کیلئے کیا سامان کر رکھا ہے۔ (الحشر : 18) ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ قیامت کا قیام و ظہور عدل کے لیے ہوگا۔ اسی لیے اس روز عدل کے ترازو نصب کیے جائیں گے تاکہ ہر کسی کو اس کے کیے کرائے کا صلہ و بدلہ کانٹے کے تول پر پورا پورا دیا جائے اور کسی سے کسی طرح کی کوئی زیادتی نہ ہونے پائے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 66 قیامت کے روز ہر کسی کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ ملے گا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اگر کسی کا رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل ہوگا تو اس کو بھی حاضر کیا جائے گا "۔ تاکہ وہ اس کا بھی صلہ و بدلہ پا سکے۔ اور کسی کی کسی بھی طرح کی کوئی حق تلفی نہ ہونے پائے۔ اور ایسا کرنا اللہ پاک۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کیلئے کچھ بھی مشکل نہیں کیونکہ کسی کا کوئی بھی عمل یا کوئی بھی چیز اس سے کسی بھی طرح مخفی اور پوشیدہ نہیں رہ سکتی خواہ وہ کہیں آسمانوں کی بلندیوں میں پائی جاتی ہو یا زمین کی پستیوں میں کہیں مخفی و مستور ہو۔ اور اس کیلئے کسی بھی چیز کو حاضر کردینا کچھ بھی مشکل نہیں کہ اس کا معاملہ تو کاف اور نون کے درمیان ہے۔ یعنی اس کیلئے " کن " فرمایا اور وہ ہوگیا ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ لہذا وہ ہر کسی کے عمل کو اس روز حاضر کریگا تاکہ وہ اس کا بدلہ پاس کے۔ بہرکیف اس یوم حساب میں کانٹے کے تول پر ہر کسی کو اس کے ہر عمل کا پورا پورا صلہ و بدلہ دیا جائے گا۔ رائی کے دانے کے برابر بھی اگر کسی کا کوئی عمل ہوگا تو اس کو بھی اس روز حاضر کیا جائے گا ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 67 اور ہم کافی ہیں حساب لگانے والے : کہ ہمارا علم بھی کامل و لامحدود اور ہماری قدرت بھی کامل و لامحدود ہے۔ پس نہ کوئی ہمارے علم سے باہر ہوسکتا ہے اور نہ ہماری قدرت سے۔ سو اس ارشاد ربانی میں بڑی تنبیہ اور تذکیر ہے غافل انسانوں کے لئے ۔ فِایّاہُ نَسْاَلُ سُبَحَانَہ وَتَعَالٰی التّوفِیْقَ وَالسّدَادَ لِمَا یُحِبُّ وَیَرْضَی مِنَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ فِی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ الْمَوَاطِنَ وَبِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال ۔ پس اگر کوئی شخص دنیا میں اپنے کیے کرائے کے نتیجے اور اس کی پاداش سے بچ بھی گیا تو اس کو اس سے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیئے کہ وہ آخرت کے اس جہان عدل و انصاف میں بہرحال اپنے کیے کرائے کے بھگتان سے نہیں بچ سکے گا۔ اور فرمایا گیا کہ ہم کافی ہیں حساب لینے کے لیے۔ ہمیں نہ کسی کی کسی طرح کی مدد و معاونت کی کوئی ضرورت ہوگی اور نہ کسی طرح کی مساعدت کی کوئی حاجت۔ بلکہ یہ سب کام ہم تنہا ہی انجام دیں گے۔ لہذا اگر کسی نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ساری مخلوق کا یہ حساب کتاب ہم کس طرح کریں گے تو یہ اس کے اپنے دماغ کی تنگی اور اس کا مغالطہ ہے۔ اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کے خود ساختہ اور من گھڑت شرکاء اور شفعاء کی ہمیں مدد درکار ہوگی تو یہ اس کے اپنے دماغ کی خرابی اور اس کا اپنا وہم ہے ۔ والعیاذ باللہ -
Top