Tafseer-e-Madani - Al-Hajj : 15
مَنْ كَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ هَلْ یُذْهِبَنَّ كَیْدُهٗ مَا یَغِیْظُ
مَنْ : جو كَانَ يَظُنُّ : گمان کرتا ہے اَنْ : کہ لَّنْ يَّنْصُرَهُ : ہرگز اس کی مدد نہ کریگا اللّٰهُ : اللہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت فَلْيَمْدُدْ : تو اسے چاہیے کہ تانے بِسَبَبٍ : ایک رسی اِلَى السَّمَآءِ : آسمان کی طرف ثُمَّ : پھر لْيَقْطَعْ : اسے کاٹ ڈالے فَلْيَنْظُرْ : پھر دیکھے هَلْ : کیا يُذْهِبَنَّ : دور کردیتی ہے كَيْدُهٗ : اس کی تدبیر مَا يَغِيْظُ : جو غصہ دلا رہی ہے
جو کوئی یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ اس کی کوئی مدد نہیں فرمائے گا دنیا وآخرت میں تو اس کو چاہیے کہ وہ ایک رسی تان لے آسمان کی طرف پھر وہ کاٹ ڈالے سلسلہ وحی کو پھر دیکھ لے کہ کیا اس کی تدبیر رد کرسکتی ہے اس چیز کو جو اس کو غصہ دلاتی ہے ؟
37 اللہ سے مایوس اور بدگمان ہونے والوں کو سخت تنبیہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو کوئی یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ اس کی مدد نہیں کرے گا۔ یعنی آنحضرت ۔ ﷺ ۔ کی تو وہ آسمان کی طرف رسی تان کر اس مدد کو قطع کر دے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے کی جاتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کسی کے بس میں نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس نصرت و مدد کو رکوا دے جو اس کی طرف سے اس کے رسول کے لئے کی جاتی ہے کہ اپنے رسولوں کی مدد کرنے کا اس نے قطعی وعدہ فرما رکھا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ۔ { اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الاَشْہَادُ } ۔ (المومن :51) ۔ نیز { ثُمَّ لْیَقْطَعْ } کا دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ایسا شخص رسی تان کر پھانسی پر لٹک جائے اور اپنے اس غیظ و غضب میں اپنی جان کا خاتمہ کر دے کہ وہ اللہ کی مدد کو نہیں روک سکتا۔ (ابن جریر، ابن کثیر، قرطبی، مراغی، مدارک، خازن اور محاسن وغیرہ) ۔ اس میں اور بھی کئی احتمال و اقوال موجود ہیں وہ انشاء اللہ ہم اپنی مفصل تفسیر میں عرض کریں گے اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا اور اس کی توفیق مل گئی۔ لیکن یہ سب اقوال و احتمال اس صورت میں ہیں جبکہ { ینصرہ } کی ضمیر منصوب کا مرجع رسول کو قرار دیا جائے۔ لیکن اس میں دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ اس کا مرجع " من " کا کلمہ موصولہ ہو جو کہ اس آیت کریمہ کے شروع میں وارد ہوا ہے۔ سو مطلب یہ ہوگا کہ جو کوئی بدبخت اس بدگمانی میں مبتلا ہو کہ اللہ اس کی مدد نہیں کرے گا اور اس بنا پر وہ اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا مولیٰ و مرجع بنا لے تو وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ بلکہ اپنے آپ ہی کو ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں ڈالے گا۔ اس لیے ایسے لوگوں کے لیے اس میں تنبیہ ہے۔ بعض حضرات اہل علم نے اسی احتمال کو اختیار کیا ہے اور یہی سیاق وسباق کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سوء ظن اور انحراف کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔ 38 خدا کے ساتھ بدگمانی رکھنے والے کی تجہیل و تحمیق : سو ایسے بدبخت شخص کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ پھر وہ خود دیکھ لے کہ کیا اس کی یہ تدبیر اس چیز کو لے جاسکتی ہے جو اس کو غصہ دلاتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ نہیں اور یقیناً نہیں کہ ایسا کرنا نہ کسی کے بس میں ہے اور نہ ایسے ہوسکتا ہے۔ تو پھر حق سے منہ موڑنے کا نتیجہ و فائدہ کیا ؟ سوائے اپنی محرومی اور بدنصیبی کے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو سلامتی کی راہ یہ ہے کہ سلسلہ وحی پر کڑھنے اور اس کو بند کرانے کی فکر میں پڑنے کی بجائے اللہ کی رسی یعنی قرآن حکیم پر صدق دل سے ایمان لاکر اور اس کی تعلیمات کو صدق دل سے اپنا کر دارین کی سعادت و سرخروئی کی راہ کو اپنایا جائے۔ یہ تقریر اوپر کے دونوں احتمالوں میں سے پہلے احتمال کی بنا پر ہوگی۔ جبکہ دوسرے احتمال کی صورت میں { فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَائِ } ۔ یعنی آسمان کی طرف رسی تاننا آخری اور انتہائی تدبیر کر دیکھنے کے لیے اسی طرح کا ایک استعارہ ہوگا جس طرح ہماری زبان میں تھگلی لگانے کا محاورہ ہے۔ جیسا کہ سورة انعام کی آیت نمبر 35 میں بھی اسی طرح ایک استعارہ گزر چکا ہے۔ سو مطلب یہ ہوگا جو بدبخت اس طرح کی بدگمانی میں مبتلا ہوں کہ اللہ ان کی کوئی مدد فرمائے گا اور اس بنا پر وہ دوسرے من گھڑت سہاروں کو اپنا ماویٰ و مرجع بنالیں وہ جہاں چاہیں آوارہ گردی کریں اور جس جوہڑ سے چاہیں اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کریں لیکن وہ یاد رکھیں کہ انسانی فطرت کے اندر جو پیاس ہے وہ ہر جوہڑ سے بجھنے والی نہیں۔ وہ صرف ایمان کے حوض کوثر ہی سے بجھ سکتی ہے۔ اور اس کے اندر جو خلا ہے وہ ہر اینٹ پتھر سے نہیں بھرا جاسکتا۔ اس کو اگر بھرا جاسکتا ہے تو اللہ وحدہ لا شریک ہی کی یاد دلشاد سے بھرا جاسکتا ہے۔ سو بڑے ہی احمق اور مت کے مارے ہوئے ہیں وہ لوگ جو اس طرح کی کسی بدگمانی میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top