Tafseer-e-Madani - Al-Hajj : 27
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ
وَاَذِّنْ : اور اعلان کردو فِي النَّاسِ : لوگوں میں بِالْحَجِّ : حج کا يَاْتُوْكَ : وہ تیرے پاس آئیں رِجَالًا : پیدل وَّعَلٰي : اور پر كُلِّ ضَامِرٍ : ہر دبلی اونٹنی يَّاْتِيْنَ : وہ آتی ہیں مِنْ : سے كُلِّ فَجٍّ : ہر راستہ عَمِيْقٍ : دور دراز
اور اعلان کردو لوگوں کے درمیان حج کا، کہ اسکے نتیجے میں وہ تمہارے پاس چلے آئیں گے پیدل بھی اور طرح طرح کی ان پتلی دبلی اونٹنیوں اور دوسری قسما قسم کی سواریوں پر بھی جو چلی آئیں گی ہر دور دراز مقام سے2
57 حضرت ابراہیم کو اعلانِ حج کا حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا " اور اعلان کردو لوگوں کے درمیان حج کا "۔ یعنی اس بات کا کہ لوگوں کے ذمے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اس گھر کا حج فرض ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا ۔ { وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعِ اِلَیْہِ سَبِیْلاً } ۔ (آل عمران : 97) ۔ روایات میں ہے کہ اس موقع پر حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) نے عرض کیا کہ مالک، میری آواز کہاں تک پہنچے گی۔ فرمایا تم آواز لگاؤ پہنچانا ہمارے ذمے ہے۔ چناچہ آپ (علیہ السلام) نے جبل ابوقبیس پر چڑھ کر آواز لگائی تو اللہ پاک نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے یہ آواز تمام بنی نوع انسان کو پہنچا دی۔ اور اس طرح پہنچائی کہ قیامت تک آنے والے جن جن خوش نصیبوں کو حج کی سعادت نصیب ہونا تھی ان سب نے اس پر لیبک کہا۔ (ابن جریر، ابن کثیر، روح، قرطبی، مدارک، خازن، فتح القدیر، صفوۃ التفاسیر اور معارف وغیرہ) ۔ اہل بدعت کے بعض تحریف پسندوں نے اپنی معروف ذہنیت اور طبعی افتاد کے مطابق اس موقع پر یہ گوہر افشانی کی کہ اس سے معلوم ہوا کہ دور سے غائبانہ ندا جائز ہے۔ لہذا ہم " یا رسول اللہ " کہہ سکتے ہیں۔ دیکھا کہاں کی بات کہاں جا کر جوڑی ؟ اس کو کہتے ہیں " ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ " اور اس کو کہتے ہیں " بھوکے کی صدا دو اور دو چار روٹیاں " اور اس کو کہتے ہیں " کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا "۔ بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ کیا حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) کا یہ پکارنا استغاثہ و استمداد کیلئے تھا ؟ اور کیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حج کی فرضیت کے اس اعلان کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں سے مدد مانگ رہے تھے ؟ اور جب ایسا نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر اس کو اہل بدعت کی اس مشرکانہ نداء و پکار سے کیا نسبت اور کیا تعلق ہوسکتا ہے جس سے وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں سے استغاثہ و استمداد کے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں ؟ اگر تمہیں اتنا بھی پتہ نہیں اور تم ان دونوں نداؤں کے درمیان موجود اس بون بعید اور بعد المشرقین کو بھی نہیں جانتے تو تمہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ تم قرآن حکیم کی تفسیر کی جرات کرو اور اپنے تئیں بڑے بڑے القاب کا دعوی کرو۔ اور اگر تم نے جان بوجھ کر اتنا بڑا دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے تو یہ کس قدر ظلم اور خیانت ہے ؟ اور تحریف معنوی کی یہ کتنی بڑی اور کس قدر کھلی مثال ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 58 حضرت ابراہیم کی دعوت و پکار کا نتیجہ : یعنی تم تو کہتے ہو کہ میری آواز کہاں اور کیسے پہنچے گی اور سوچتے ہو کہ اس غیر آباد و بیابان وادی بےآب وگیاہ ۔ { غیر ذی زرع } ۔ میں کون آئے گا۔ کیوں آئے گا اور کیسے آئے گا۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ تم آواز لگاؤ پھر ہماری قدرت کی کرشمہ سازی دیکھو کہ یہ آواز کہاں پہنچتی ہے اور یہاں پر کہاں کہاں کی اور کیسی کیسی دنیا کھچ کھچ کر آتی ہے اور کس قدر شوق و محبت اور وارفتگی کے ساتھ آتی ہے اور ہمیشہ آتی رہے گی۔ چناچہ ایسے ہی ہوا۔ حضرت ابراہیم خلیل (علیہ الصلوۃ والسلام) نے اپنے رب کے حکم کے مطابق جبل ابوقبیس یا کسی اور بلند پہاڑی پر ۔ علی اختلاف الاقوال ۔ چڑھ کر بغیر لاؤڈ سیپکر وغیرہ کے کسی ظاہری اور مصنوعی آلہ کے سہارے کے آواز لگائی تو ربِّ قدیر کی قدرت مطلقہ سے وہ آواز وہاں وہاں پہنچی جہاں ہمارا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔ سو دیکھو کہ حضرت قادر مطلق کی قدرت کاملہ کی کرشمہ سازی اور اس کے اس وعدئہ و ارشاد کی صداقت کس کس طرح چمک دمک کر سامنے آئی اور ہزاروں سال سے آج تک برابر آرہی ہے کہ وہ خانہ خدا دن رات کے چوبیس گھنٹے کے دوراینے میں کبھی ایک منٹ سکینڈ اور لمحہ و پل بھر کے لئے بھی عشاقان دید و زیارت سے خالی نہیں ہوتا اور ہزاروں سال پہلے کے اونٹوں کی معروف واصیل سواری کے علاوہ زمانہ حال کی ترقی کے مطابق بسوں، کاروں، ریل گاڑیوں اور ہوائی و بحری جہازوں کے ذریعے اطراف و اَکناف عالم سے ایک دنیا کی دنیا بصد شوق و اضطراب کچھی کی کچھی وہاں چلی آرہی ہے۔ اور ایسی کہ پورا سال یہ سلسلہ جاری وساری رہتا ہے۔ اور اس حد تک کہ حج کے دنوں میں مکہ کی گلیوں بازاروں میں، منٰی کی پہاڑیوں اور گزرگاہوں میں اور عرفات و مزدلفہ کے میدانوں میں کہیں قدم رکھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ ایک دنیا ہے کہ ننگے پاؤں، برہنہ سر اور پرا گندہ بال امڈی چلی آرہی ہے ۔ سبحان اللہ ۔ کیا سوز و گداز اور کس قدر صدق و اخلاص اور کیسی کشش و تاثیر تھی حضرت ابراہیم خلیل ۔ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام ۔ کی اس سیدھی سادی آواز میں جس سے انہوں نے اپنے خالق ومالک کے حکم کی تعمیل میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے اس گھر کی حاضری و زیارت کی دعوت دی ؟ اور کیا شان ہے حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کے نوازنے اور کرم فرمانے کی۔ کیسے کیسے طریقوں اور کس کس طرح سے وہ اپنے بندوں کو اپنی رحمتوں اور عنایتوں سے نوازتا ہے ۔ جل جلالہ وعم نوالہ ۔ مالک اپنے اس بندئہ ظلوم و جہول، عاصی و خجول، کاتب سطور کو بھی اپنی شان کریمی سے حضرت ابراہیم خلیل کے اس صدق و اخلاص اور اپنی اس بخشش وعطاء کے کسی شمے سے نواز دے کہ تیری تو شان ہی نوازنا ہے۔ لگاتار و مسلسل نوازنا۔ بےحد و حساب اور بےگمان نوازنا ۔ تو عطاء من گدا تو کجا من کجا ۔ اے میرے رب جو کہ حَیِّی وسِتّیر اور کریم و وہاب ہے میرے ہاتھوں کو خالی نہ لوٹانا ۔ اپنی خاص رحمتوں اور عنایتوں کی چادر میں لپیٹ دے مجھے بھی اور میرے بیوی بچوں کو بھی اور دوسرے خصوصی تعلقداروں کو بھی ۔ آمین ثم آمین ۔ یا اَرْحم الراحمین و یا اکرم الاکرمین ۔ { بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَہُوَ یُجِیْرُ وَلاَیُجَارُ عَلَیْہِ } ۔ بہرکیف حضرت ابراہیم کو ارشاد ہوا کہ آپ لوگوں کے درمیان حج کی فرضیت اور اس کیلئے بیت اللہ کی حاضری کی آواز لگاؤ۔ دنیا خود تمہارے پاس کھچی کی کھچی چلی آئیگی۔ اور ایسے ہی ہوا اور ہورہا ہے۔ سو بندے کا کام ہے کہ بےچوں وچرا اپنے رب کے حکم وارشاد پر عمل کرے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 59 لفظِ { ضامر } کا معنیٰ و مفہوم ؟ : " ضامر " کا اطلاق مذکر و مونث دونوں پر ہوتا ہے۔ (جلالین، جمل وغیرہ) ۔ اسی لئے بعض حضرات نے اس کا ترجمہ اونٹوں سے کیا ہے اور بعض نے اونٹنیوں سے۔ دونوں ترجمے درست اور صحیح ہیں۔ ہم نے اپنے ترجمہ میں دوسرے احتمال کو اختیار کیا۔ ایک تو اس کے بعد آنے والے لفظ { یاتین } کی رعایت سے جو کہ مونث کا صیغہ ہے۔ اور دوسرے بین القوسین اپنے اضافہ کردہ لفظ سواریوں کی مناسبت سے۔ اور " ضامر " کو مذکر یعنی اونٹوں کے معنی میں لیا جائے تو اس صورت میں صیغہ " یاتین " کی صفت معنیٰ کے اعتبار سے ہوگی۔ کیونکہ { کل ضامر } جماعت کے معنیٰ میں ہے جو کہ ظاہر ہے مونث ہے۔ اور دوسری قراءت میں " یاتون " بھی آیا ہے جو کہ مذکر کا صیغہ ہے۔ اس صورت میں یہ صفت ہوگی " رجال " و " رکبان " کی یا " ناس " کی۔ (محاسن، جمل، فتح وغیرہ) ۔ اور " ضامر " اس اونٹ یا گھوڑے کو کہتے ہیں جو کہ دور دراز کی سفری مشقت وغیرہ کی وجہ سے کمزور ہوگیا ہو۔ سو دنیا ہر طرف سے اس کی طرف کھنچتی چلی آر ہی ہے۔ 60 بیت اللہ کی شان محبوبیت کا عالم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ابراہیم ایسی مختلف سواریاں ہر طرف سے دور دراز کی مختلف مسافتیں طے کر کے وہاں پہنچیں گی۔ اپنے اس ایمان و یقین اور شوق و ذوق کی بناء پر جو کہ ان کے دلوں میں موجود و موجزن ہوگا اور جسکے لئے حضرت ابراہیم نے دعا کی تھی ۔ { فَاجْعَل افَْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ اِلَیْھِمْ } ۔ (ابراہیم :37) سو اس دعائے ابراہیمی کے نتیجہ میں بیت اللہ کو ایسی شان محبوبیت نصیب ہوگئی اور لوگوں کے دل اس کے ایسے گرویدہ ہوگئے کہ چاروں طرف سے اس کی طرف کھچے چلے آتے ہیں اور ہر قسم کی سواری کے ذریعے وہاں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس راہ میں پیش آنے والی ہر صعوبت و پریشانی اور مشکل و رکاوٹ کو وہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں اور یہ سلسلہ ہزاروں سال پہلے سے لیکرآج تک ایک برابر قائم اور جاری وساری ہے۔ اور ہر سال حج کے موقعہ پر ایک ایسا عجیب و غریب روح پرور منظر دنیا کو دیکھنے کو ملتا ہے کہ پوری روئے زمین پر اس کی دوسری کوئی نظیر و مثال نہ پائی جاتی ہے اور نہ پائی جانی ممکن ہے۔ اور زیارت بیت اللہ کا یہ سلسلہ مطہرہ سال کے بارہ مہینے اور مہینے کے تیس دنوں میں اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں ہمیشہ اور ہر موسم میں بغیر کسی انقطاع کے لگاتار جاری رہتا ہے ۔ فالحمد للہ رب العالمین -
Top