Tafseer-e-Madani - Al-Muminoon : 44
ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا١ؕ كُلَّمَا جَآءَ اُمَّةً رَّسُوْلُهَا كَذَّبُوْهُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَّ جَعَلْنٰهُمْ اَحَادِیْثَ١ۚ فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ
ثُمَّ : پھر اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجے رُسُلَنَا : رسول (جمع) تَتْرَا : پے در پے كُلَّمَا : جب بھی جَآءَ : آیا اُمَّةً : کسی امت میں رَّسُوْلُهَا : اس کا رسول كَذَّبُوْهُ : انہوں نے اسے جھٹلایا فَاَتْبَعْنَا : تو ہم پیچھے لائے بَعْضَهُمْ : ان میں سے ایک بَعْضًا : دوسرے وَّجَعَلْنٰهُمْ : اور انہیں بنادیا ہم نے اَحَادِيْثَ : افسانے فَبُعْدًا : سو دوری (مار) لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے لَّا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان نہیں لائے
پھر ہم نے پے درپے اپنے رسول بھیجے مگر ان سب کا حال یہی رہا کہ جب بھی کبھی کسی قوم کے پاس اس کا رسول آیا تو اس نے اس کی تکذیب ہی کی، جس کے نتیجے میں ہم بھی ایک کے بعد ایک قوم کو ہلاک کرتے چلے گئے اور ہم نے ان سب کو قصے کہانیاں بنا کر رکھ دیا سو بڑی پھٹکار ہے ان لوگوں کیلیے جو ایمان نہیں لاتے،
56 ہر قوم نے اپنے رسول کی تکذیب کی : سو اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو ہر قوم کی ہدایت و راہنمائی اور اس کی اصلاح و خیرخواہی کے لیے اس کے اندر رسول بھیجا مگر ان لوگوں نے حق سے منہ موڑ کر اپنی تباہی اور بربادی کی راہ ہی کو اپنایا۔ پس آج جو لوگ حق کو جھٹلاتے اور اہل حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں تو یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں۔ بلکہ پہلے سے ہی ایسے ہوتا آیا ہے۔ پس آپ ﷺ تسلی رکھیں اور اسی طرح صبر و برداشت ہی سے کام لیں جس طرح کہ پہلے انبیائے کرام نے کیا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُوْلُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلَ لَّّہُمْ } ۔ (الاحقاف : 35) ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 57 تکذیب و انکار حق کا نتیجہ ہلاکت و تباہی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرات انبیاء و رسل کی بعثت و تشریف آوری کے بعدلوگوں نے ان کو جھٹلایا اور ان کے لائے ہوئے پیغام حق کو جھٹلایا۔ تو ہم ایک کے بعد ایک قوم کو ہلاک کرتے چلے گئے ان کے اختیار کردہ کفر و باطل کی بنا پر اور راہ حق و ہدایت سے منہ موڑنے اور حضرات انبیائے کرام کی تکذیب کے باعث۔ سو کفر و باطل اور انکار وتکذیبِ حق کا نتیجہ و انجام بہرحال تباہی اور ہلاکت ہے۔ امتحان و اختیار کے تقاضوں کی بناء پر حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی طرف سے جو ڈھیل اور مہلت انسان کو اس ضمن میں ملتی ہے اس سے کسی کو دھوکے میں نہیں پڑنا چاہئے کہ وہ بہرحال ایک مہلت ہے جس نے بالآخر ختم ہوجانا ہے ۔ والعیاذ باللّٰہ مِنْ کَلِّ سُوْئٍ وَّشَرِّ وَزَیْغٍ انْحِراف ۔ اللہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین۔ 58 منکرین کے لیے عذاب استیصال کا ذکر : سو ان منکر قوموں کے عذاب استیصال کے ذکر وبیان کے سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے ان کو قصے کہانیاں بنادیا۔ جن کو لوگ پڑھتے پڑھاتے اور سنتے سناتے ہیں اور بس۔ اس کے سوا خارج میں ان کا نہ کوئی وجود رہ گیا ہے نہ کوئی نام و نشان ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اپنی جس قوت و طاقت پر ان کو ناز ہوا کرتا تھا اور جس کی بنا پر وہ کہا کرتے تھے کہ ہم سے بڑھ کر قوت وطاقت اور کس کی ہوسکتی ہے ؟ وہ ان کے کچھ کام نہ آسکی۔ اور اپنی جس مادی ترقی، شان و شوکت، عددی کثرت اور عروج و اقبال کا ان کو گھمنڈ تھا وہ سب کچھ مٹ مٹا کر ماضی کی داستان اور قصہ پارینہ بن کر رہ گیا۔ سو یہی نتیجہ ہوتا ہے کفر و انکار حق سے گریز و فرار اور بغاوت و سرکشی کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 59 نور ایمان سے محرومی ہر خیر سے محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ بےایمانوں کے لیے بڑی ہی سخت محرومی اور پھٹکار ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " بڑی خرابی اور پھٹکار ہے ان لوگوں کیلئے جو ایمان نہیں رکھتے "۔ کہ اسطرح وہ دارین کی ذلت و رسوائی کا شکار ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ایمان سے محرومی ہر خیر سے محرومی اور سب خرابیوں اور ناکامیوں کی جڑ بنیاد ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کہ اس سے انسان اندھا اور اوندھا بن کر رہ جاتا ہے اور وہ اپنی منزل مقصود سے بیخبر اور راہ حق و صواب سے بےبہرہ ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو نور ایمان و یقین دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اللہ ہمیشہ راہ حق پر مستقیم اور ثابت قدم رکھے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top