Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 67
وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَآ اَنْفَقُوْا : جب وہ خرچ کرتے ہیں لَمْ يُسْرِفُوْا : نہ فضول خرچی کرتے ہیں وَلَمْ يَقْتُرُوْا : ور نہ تنگی کرتے ہیں وَكَانَ : اور ہے بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان قَوَامًا : اعتدال
اور جو کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ کنجوسی بلکہ ان کا خرچ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔1
85 خرچ کے سلسلے میں میانہ روی کی صفت محمود کا ذکر وبیان : سو ۔ عباد الرحمن ۔ کی خاص صفات کے بیان کے سلسلے میں مزید ارشاد فرمایا گیا کہ وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ وہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔ فضول خرچی اور اسی طرح کنجوسی کی کئی شکلیں ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ انسان اپنا مال ناجائز کاموں میں صرف کرے یا جائز کاموں میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرے۔ یا حقوق واجبہ اور ضروریات زندگی میں بھی کمی کرنے لگے وغیرہ۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ نیک کاموں میں جتنا بھی خرچ کرے وہ فضول خرچی میں نہیں آتا۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ ایک بزرگ نے جب ایک دوسرے بزرگ کو کارخیر میں بہت مال خرچ کرتے دیکھا تو انہوں نے کہا ۔ " لَاخَیْرَ فِیْ سَرْفٍ " ۔ " فضول خرچی میں کوئی بھلائی نہیں " تو انہوں نے فوراً جواب دیا ۔ " لَا سَرَفَ فِیْ خَیْرٍ " ۔ " بھلائی میں خرچ کرنا کوئی فضول خرچی نہیں ہوتا " بہرحال اللہ والوں کے خرچ میں بھی توسط اور اعتدال ہوتا ہے جیسا کہ حدیث شریف وارد ہوا ہے ۔ " اِنَّ مِنْ فِقْہِ الرَّجُلِ قَصْدُہ فِیْ مَعِیْشَتِہٖ " ۔ یعنی " آدمی کی سمجھداری اور دانش مندی میں سے یہ بھی ہے کہ وہ خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرے "۔ (رواہ احمد (رح) و الطبرانی (رح) ) ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وعلی سبیل الدوام والتابید -
Top