Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 154
مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا١ۖۚ فَاْتِ بِاٰیَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
مَآ اَنْتَ : تم نہیں اِلَّا بَشَرٌ : مگر۔ صرف۔ ایک بشر مِّثْلُنَا : ہم جیسا فَاْتِ : پس لاؤ بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی اِنْ : اگر كُنْتَ : تو مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
تم تو ہم ہی جیسے ایک بشر اور انسان ہو پس لاؤ کوئی نشانی اگر تم سچے ہو۔3
78 پیغمبر کی نبوت کا انکار ان کی بشریت کی بنا پر۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ انہوں نے کہا کہ تم تو ہم ہی جیسے ایک بشر ہو۔ تو پھر تم نبی اور رسول کس طرح ہوسکتے ہو ؟۔ یعنی ان کے یہاں نبوت اور بشریت میں منافات تھی کہ یہ دونوں صفتیں یکجا نہیں ہوسکتیں۔ پس جو بشر ہوگا وہ نبی نہیں ہوسکتا اور جو نبی ہوگا وہ بشر نہیں ہوسکتا۔ اور یہی غلط فہمی آج بھی بہت سے لوگوں میں موجود ہے۔ اور بہت سے جاہل مسلمان بھی یہی سمجھتے اور ایسا کہتے ہیں۔ اور ان کے نزدیک بھی رسالت اور بشریت دونوں صفتیں یکجا نہیں ہوسکتیں۔ فرق اگر ہے تو یہ کہ کل کے ان لوگوں نے بشریت کو دیکھتے ہوئے انبیائے کرام کی نبوت و رسالت کا انکار کیا اور آج کے یہ لوگ نبوت و رسالت کے ماننے کے دعویدار بن کر ان کی بشریت کے منکر ہو رہے ہیں۔ جبکہ حق اور حقیقت یہ ہے کہ حضرات انبیائے کرام ۔ علیھم الصلوۃ والسلام ۔ بیک وقت نبی و رسول بھی ہوتے ہیں اور بندے و بشر بھی۔ اور ان میں یہ دونوں وصف یکجا ہوتے ہیں۔ بلکہ وہ بشر اور انسان پہلے ہوتے ہیں اور نبی و رسول بعد میں بنتے ہیں۔ اسی لئے ہر مسلمان اپنی التحیات میں دن رات میں کتنی ہی بار۔ " عَبْدُہ وَرَسُوْلُہٗ " ۔ کے الفاظ سے اس حقیقت کا اعادہ و تکرار کرتا ہے۔ اور فقہ و عقائد کی کتابوں میں جہاں بھی نبی و رسول کی تعریف کی گئی ہے وہاں یہی بتایا گیا ہے کہ وہ ایسے انسان ہوتے ہیں جن کو اللہ پاک اپنے احکام کی تبلیغ اور پیغام رسانی کے لئے چن لیتا ہے ۔ " ہُوَ اِنْسَانٌ بَعَثَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی لتبلیغ احکامہ " ۔ جمہور اہل علم اور حضرات اسلاف کرام سے ایسے ہی منقول ہوتا آیا ہے۔ مگر اس کے باوجود اہل بدعت کے بعض بڑے تحریف پسندوں کا کہنا ہے کہ " خیال رہے کہ انبیائے کرام کو بشر یا تو رب نے فرمایا ہے یا خود پیغمبر نے یا کفار نے۔ اب جو انہیں بشر کہے وہ رب تو ہے نہیں نہ رسول لہذا کافر ہی ہوگا " ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کیسی بکواس ہے جو اس ظالم بدعتی ملاں نے بکی اور کیسی تحریف و سینہ زوری ہے جس کا ارتکاب اس محرف نے کیا۔ اور وہ بھی قرآن پاک کے حواشی پر۔ خذلہم اللہ وقاتلہم انی یؤفکون ۔ اتنا بڑا ظلم اور اس قدر مکابرہ اور اہل حق سے اس قدر بغض وعناد ؟۔ ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئیے ؟۔ یہود کو شرما دینے والی ایسی تحریف کا ارتکاب اور پھر بھی دعویٰ و زعم بڑے عالم اور مفسر ہونے کا ؟ اتنا بڑا ظلم اور اس قدر مکاری و سینہ زوری ؟ اور وہ بھی قرآن حکیم کے حواشی پر ؟ ۔ فالی اللہ المشتکیٰ ۔ بھلا اس بدعتی ملاں سے کوئی پوچھے کہ جس حقیقت کا ذکر وبیان حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ خود فرمائے۔ حضرات انبیائے کرام ۔ علیھم الصلوۃ والسلام ۔ بھی واضح اور صریح طور پر اس کا اقرار و اعتراف کریں اور اس کو طرح طرح سے اس حد تک واضح کردیں کہ اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ جائے۔ اور ایسی واضح حقیقت جسکے ماننے پر کفار بھی مجبور ہوں۔ سو ایسی حقیقت صادقہ کے انکار کی آخر کیا گنجائش ہوسکتی ہے ؟ اور جو کوئی ایسی حقیقت واقعیہ کا انکار کرے وہ خود دیکھ لے کہ وہ کہاں اور کس جگہ کھڑا ہے ؟ اور اس پر کون سا فتویٰ چسپاں ہوتا ہے ؟۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top