Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 187
فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَؕ
فَاَسْقِطْ : سو تو گرا عَلَيْنَا : ہم پر كِسَفًا : ایک ٹکڑا مِّنَ : سے۔ کا السَّمَآءِ : آسمان اِنْ كُنْتَ : اگر تو ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے
پس تم گرا دو ہم پر کوئی ٹکڑا آسمان کا اگر تم سچے ہو اپنے دعوے میں،
91 قوم شعیب کی طرف سے عذاب کا مطالبہ : سو انہوں نے حضرت شعیب کی دعوت پر کان دھرنے اور اس کو قبول کرنے کی بجائے ان سے کہا کہ " تم ہم پر آسمان کے کچھ ٹکڑے گرا دو اگر تم سچے ہو اپنے دعوے میں "۔ یعنی ہم نے تمہاری دعوت کو بہرحال نہیں ماننا۔ پس تم آسمان کے کچھ ٹکڑے ہم پر گرا دو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ جیسا کہ کفار مکہ نے کہا تھا ۔ { اَللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَائِٓ اَوْئْتِنَا بَعَذَابٍ اَلِیْمٍ } ۔ (الانفال :32 ) ۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایمان سے محروم انسان کس قدر اندھا اور اوندھا ہوجاتا ہے کہ وہ عافیت کی بجائے ہلاکت اور تباہی کی دعا مانگنے لگتا ہے۔ جیسا کہ اہل مکہ نے کہا تھا اور جیسا کہ اس سے پہلے ان لوگوں نے حضرت شعیب سے کہا۔ " کسف " جمع ہے " کسفہ " کی۔ جس کے معنیٰ ٹکڑے کے ہیں۔ یعنی اگر تم سچ مچ اللہ کے رسول ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے، اور اگر ہم نے تمہاری بات نہ مانی تو ہم پر آسمان گرپڑے گا۔ تو پھر تم آسمان کے کچھ ٹکڑے ہم پر گرا کر دکھاؤ۔ جیسا کہ دوسرے مقامات پر ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت شعیب نے اپنی قوم کو خبردار فرمایا تھا کہ اگر تم لوگوں نے میری بات نہ مانی تو تم پر بھی اسی طرح کا کوئی عذاب آکر رہے گا جیسا کہ عاد، ثمود اور قوم لوط وغیرہ پر آچکا ہے۔ تو آپ (علیہ السلام) کے اس انذار کے جواب میں قوم نے آپ (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کردیا ۔ والعیاذ باللہ -
Top