Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 219
وَ تَقَلُّبَكَ فِی السّٰجِدِیْنَ
وَتَقَلُّبَكَ : اور تمہارا پھرنا فِي : میں السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے (نمازی)
آپ کی نقل و حرکت پر سجدہ ریزوں میں
115{ تقلّب فی الساجدین } کا معنی و مطلب ؟ : سو ارشاد فرمایا " اور جو نگاہ رکھے ہوئے ہے آپ کی نقل و حرکت پر سجدہ کرنے والوں کے درمیان "۔ خواہ یہ نقل و حرکت دوسرے نمازیوں کے ساتھ نماز پڑھنے اور رکوع و سجود وغیرہ کرنے کی شکل میں ہو یا ان کی نگرانی اور ان کے حالات معلوم کرنے کی غرض سے۔ سو آپ ﷺ کا رب اور آپ ﷺ کا خالق ومالک آپ کو ہر وقت اور ہر حال میں دیکھتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو یہ ارشاد ربانی ایسے ہی ہے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ کی مشہور حدیث میں فرمایا گیا۔ " اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَانَکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرٰکَ " ۔ یعنی " احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی بندگی ایسے کرو جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو۔ سو اگر تم اس کو نہیں دیکھ سکتے تو وہ یقینا تمہیں دیکھ رہا ہے " (تفسیر المراغی (رح) وغیرہ) ۔ یہی مطلب اس آیت کریمہ کا تمام ثقہ اہل علم اور جمہور مفسرین کرام نے بیان فرمایا ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر طبری، ابن کثیر، قرطبی، صفوۃ التفاسیر، روح المعانی اور المراغی وغیرہ وغیرہ۔ اور بعض نے اس کا مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس سے مراد آپ ﷺ کا اصلاب آبا و اُمہات میں منتقل ہوتے رہنا ہے۔ اور ہمارے اہل بدعت جو علم صحیح کی روشنی سے محروم اور ایسی ہی گری پڑی اور شاذ و نادر قسم کی روایات کی تلاش میں رہتے ہیں انہوں نے اسی قول کو اپنایا ہے۔ اور اس کو اپنے مزعومات کے مطابق خوب مرچ مسالہ لگا کر پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو یہ اللہ پاک کے اسی وسیع اور بےمثال علم کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ آپ کو ہر حال میں دیکھتا اور جانتا ہے اور بس۔ مگر یہ روایت سند کے لحاظ سے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ اور خود لفظ تقلب میں بھی اس کے ضعف پر دلالت پائی جاتی ہے۔ کیونکہ تقلب اصل میں اس نقل و حرکت کو کہا جاتا ہے جو انسان اپنے ارادئہ و اختیار سے کرتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اصلاب آباء و اُمہات میں کی جانے والی نقل و حرکت میں انسان کے اپنے ارادئہ و اختیار کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اسی لئے علامہ آلوسی (رح) جیسے محققین اس روایت کو اس آیت کریمہ کا مصداق قرار دینے کیلئے تیار نہیں اور وہ کہتے ہیں کہ میں اس روایت اور اس پر مبنی اس تفسیر پر اعتماد نہیں کرسکتا۔ (روح المعانی : ج 19 ص 138) ۔ نیز اس تفسیر کے اختیار کرنے پر کچھ اور تکلفات بھی کرنے پڑتے ہیں جو لوگوں کیلئے کئی اور مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ چناچہ اسی بنا پر ایسے لوگوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ آزر کے آپ (علیہ السلام) کا باپ ہونے سے انکار کیا کہ وہ مشرک تھا۔ اس لئے ان کو یہ کہنا پڑا کہ اس سے مراد ابراہیم کے باپ نہیں انکے چچا ہیں۔ حالانکہ یہ بلاوجہ کا تکلیف اور خروج عن الظاہر ہے جس کا ارتکاب ایسے لوگوں کو خواہ مخواہ اور اسی روایت کی بنا پر کرنا پڑا ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرحال آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آپ کو ہر حال میں دیکھتا ہے اور آپ ہمیشہ اس کی نظر عنایت کے زیر سایہ رہتے ہیں تو بھروسہ ہمیشہ اسی وحدہ لاشریک پر رکھئے۔ اس کا بھروسہ آپ کے لئے ہر لحاظ سے کافی ہے۔ پھر آپ کو کسی کی کیا پرواہ ؟ وہ ہر حال میں آپ کو دیکھتا اور آپ کی نگرانی فرماتا ہے۔ جیسا کہ سورة طور میں ارشاد فرمایا گیا { فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا } (طور : 48) یعنی " آپ یقینا ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں "۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔
Top