Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 83
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ
تِلْكَ : یہ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ : آخرت کا گھر نَجْعَلُهَا : ہم کرتے ہیں اسے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو لَا يُرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے عُلُوًّا : برتری فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا فَسَادًا : نہ فساد وَالْعَاقِبَةُ : اور انجام (نیک) لِلْمُتَّقِيْنَ : اور انجام (نیک)
آخرت کا یہ عظیم الشان گھر ہم ان ہی لوگوں کو دیں گے جو نہ زمین میں اپنی بڑائی اور تکبر چاہتے ہیں اور نہ کسی طرح کا کوئی فساد وبگاڑ اور یہ بہرحال حقیقت ہے کہ کامیابی انجام کار پرہیزگاروں ہی کے لئے ہے (1)
119 دار آخرت کے حق داروں کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آخرت کا یہ گھر انہی لوگوں کیلئے ہے جو نہ زمین میں فساد چاہتے ہیں اور نہ ہی وہ استکبار سے کام لیتے ہیں۔ یعنی وہ تکبر اور اپنی بڑائی نہیں چاہتے بلکہ اللہ کی زمین میں اللہ ہی کی عظمت کے ذکر و احساس سے اس کے حضور دل کی گہرائیوں سے جھکے جھکے رہتے ہیں۔ اور تکبر و سرکشی کی بجائے وہ عبدیت و بندگی کے طور طریقوں کو اپنا شعار بنائے رکھتے ہیں۔ سو اس علو اور سرکشی سے مراد یہ ہے کہ کوئی حق سے سرکشی کرے اور دوسروں کو اپنے سے حقیر سمجھے ورنہ محض اچھا لباس پہننا وغیرہ اس میں داخل نہیں۔ (ابن کثیر، معارف وغیرہ) کہ اچھا کھانا اور اچھا پہننا سرے سے تکبر میں داخل ہی نہیں جبکہ ایسا کرنا صحیح نیت کی بنا پر اور جائز حدود کے اندر ہو۔ بلکہ یہ اس اعتبار سے ایک درجہ میں مطلوب و محمود ہے تاکہ اس طرح انسان اپنے خالق ومالک کی بخشی ہوئی اور اس کی عطا فرمودہ نعمتوں پر اس واہب مطلق کا شکر ادا کرے جو کہ اصل مقصود ہے۔ اس امر کو مختلف نصوص کریمہ میں طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ دار آخرت کے مستحق اور اس کے حقدار وہی لوگ ہوں گے جو اللہ کی اس زمین میں نہ فساد چاہتے ہیں نہ سرکشی۔ 120 انجام کار کامیابی پرہیزگاروں ہی کیلئے ہے : جو ڈرتے اور بچتے رہتے ہیں ہر اس کام سے جو ان کے خالق ومالک کی ناراضگی کا باعث ہو ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو وہ اللہ کی زمین میں فساد و استکبار سے کام لینے کی بجائے اپنے خالق ومالک کے حضور عاجزی اور بندگی کرنے والے بندے بن کر رہتے ہیں۔ اس کی مقرر فرمودہ حدود کے اندر رہتے ہیں اور اللہ کی زمین میں اپنی اہواء و اَغراض کے مطابق چلنے کی بجائے وہ اس نظام حق و عدل کے حامی و علمبردار بن کر رہتے ہیں جسکو انکے خالق ومالک نے اپنے بندوں کیلئے مقرر کیا اور پسند فرمایا ہے۔ سو یہی لوگ متقی و پرہیزگار ہیں اور انجام کار فوز و فلاح انہی لوگوں کیلئے ہے۔ سو انسان کے باطن کا استکبار کے جراثیم سے پاک ہونا اور اعمال کا فساد سے محفوظ رہنا حقیقی فوز و فلاح کی اصل اور اساس ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید بکل حال من الاحوال -
Top