Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 101
وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ١ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتُ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَفِيْكُمْ : اور تمہارے درمیان رَسُوْلُهٗ : اس کا رسول وَمَنْ : اور جو يَّعْتَصِمْ : مضبوط پکڑے گا بِاللّٰهِ : اللہ کو فَقَدْ ھُدِيَ : تو اسے ہدایت دی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا راستہ
اور تم کیسے کفر کرتے ہو جب کہ تمہیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اللہ کی آیتیں، اور تمہارے اندر موجود ہے اس کا رسول، اور (یاد رکھو کہ) جس نے مضبوطی سے تھام لیا اللہ (کی رسی) کو، تو وہ یقینا سرفراز ہوگیا سیدھی راہ کی ہدایت سے
205 کفر وانکار کی گنجائش کی نفی : سو کفر وانکار کی نفی کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ کیسے کفر کرسکتے ہو جبکہ تمہیں اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائی چاتی ہیں اور تمہاری اندر اس کا رسول بھی موجود ہے۔ یعنی ایسے میں تمہارے لیے کفر و انکار کی کوئی گنجائش نہیں : استفہام یہاں پر تعجب و انکار کیلئے ہے، کہ جب کفر کے دواعی و اسباب منتفی اور حق پر ثابت قدمی کے اسباب پوری طرح موجود ہیں، تو پھر تمہارے لئے کفر و انکار کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟ پس تم لوگوں کو کفر و انکار کے شوائب سے ہمیشہ بچ کر رہنا چاہیئے اور نور ایمان و یقین سے سرفرازی پر دل و جان سے اپنے خالق ومالک کا شکر ادا کرنا چاہیئے تاکہ اس طرح خود تمہارا اپنا بھلا ہو، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ وَبِاللّٰہ التًّوْفِیْقِ ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ آج جب اللہ کی آیتیں تم لوگوں کو پڑھ کر سنائی جا رہی ہیں اور اللہ کا رسول تمہارے اندر موجود ہے تو پھر بھی تم اگر کفر و انکار کی راہ پر چلو گے تو یہ تمہاری انتہائی بدبختی ہوگی اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم نے پورے دن کی روشنی میں ٹھوکر کھائی ہے اور تم جان کر کھڈے میں گر رہے ہو۔ اور تم نے اپنے لئے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 206 " وفیکم رسولہ " کا معنی و مطلب ؟ : یعنی یہ کہ اس وقت اللہ کے رسول بنفس نفیس خود ان کے اندر موجود تھے ۔ صَلَوات اللّٰہ و سَلاَمہُ عَلَیْہ ۔ پس اہل بدعت کا اس آیت کریمہ کے ان الفاظ شریفہ سے حاضر و ناظر کے اپنے شرکیہ عقیدے کیلئے دلیل کشید کرنے کی کوشش کرنا باطل و مردود ہے۔ کیونکہ اس کا تعلق اس خاص واقعہ سے ہے جیسا کہ روایات میں وارد اور مذکور و موجود ہے۔ نہ کہ ہمیشہ کے لئے۔ بلکہ آئندہ اور ہمیشہ کے بارے میں آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو ایسی عظیم الشان اور بھاری چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جب تک تم نے ان کو اپنائے اور تھامے رکھا تو تم کبھی گمراہ نہیں ہوؤ گے، ایک اللہ کی کتاب اور ایک میری سنت۔ یہ نہیں فرمایا کہ میں بذات خود تمہارے درمیان ہمیشہ موجود رہوں گا۔ کہ ہمیشہ اور ہر جگہ حاضر و موجود ہونا اللہ تعالیٰ ہی کی صفت وشان ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 207 اعتصام باللہ کا معنیٰ و مطلب ؟ : اعتصام کے اصل معنی ہیں تھامنے اور مضبوط پکڑنے کے۔ سو اللہ کو مضبوط پکڑنے سے مراد اس کی کتاب کو مضبوط پکڑنا ہے اس پر سچا پکا ایمان لا کر۔ اس کے احکام و اَوامر کی تعمیل و پیروی کر کے اور اس وحدہ لاشریک پر دلی بھروسہ اور اعتماد کر کے کہ معبود برحق بھی وہی وحدہ لاشریک ہے، اور اس پوری کائنات کا خالق ومالک بھی وہی۔ اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اللہ کے احکام و ہدایات اور اس کی کتاب کی مقدس تعلیمات پر مضبوطی سے قائم رہنا اور نرم و گرم ہر طرح کے حالات میں مخالفت و موافقت سے بےنیاز ہو کر ان کو اپنائے رکھنا اعتصام باللہ ہے اور یہی طریقہ ہے جادہ استقامت پر استوار اور ثابت قدم رہنے کا ۔ وَباِللہ التَّوْفِیْق وبہ العصمۃ من کل زیغ و زلل - 208 سیدھی راہ سے سرفرازی کی خوشخبری : سو اس ارشاد میں اللہ کی رسی یعنی قرآن حکیم کو مضبوطی سے تھامنے والوں کیلئے سیدھی راہ سے سرفرازی کی خوشخبری ہے۔ ایسی سیدھی راہ جو کہ دارین کی سعادت و کامیابی اور حقیقی فوز و فلاح کی کفیل وضامن ہے۔ جو کہ حق و صواب کی امین و پاسدار ہے۔ اور جو کہ سرفراز کرنے والی ہے انسان کو اپنے رب کی رضا و خوشنودی اور جنت کی سدابہار اور ا بدی نعمتوں سے ۔ اللہ اپنے کرم سے سرفراز فرمائے ۔ آمین ثم آمین یارب العالمین۔ سو اعتصام بکتاب اللہ راہ حق و ہدایت سے سرفرازی، اور اس پر استقامت و ثابت قدمی دشمنوں کی شرانگیزیوں سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔ پس اس کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آیات اور اس کی ارشاد فرمودہ ہدایت کو حرزجاں بنایا جائے اور تمام مشکلوں اور مخالفتوں کے باوجود اس کو مضبوطی سے تھاما جائے ۔ وباللّٰہ التوفیق وہوالہادی الی سواء السبیل ۔ اللہ ہمیشہ صراط مستقیم پر ثات قدم رکھے ۔ آمین۔
Top