Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 168
اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ وَ قَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا١ؕ قُلْ فَادْرَءُوْا عَنْ اَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قَالُوْا : انہوں نے کہا لِاِخْوَانِھِمْ : اپنے بھائیوں کے بارے میں وَقَعَدُوْا : اور وہ بیٹھے رہے لَوْ : اگر اَطَاعُوْنَا : ہماری مانتے مَا قُتِلُوْا : وہ نہ مارے جاتے قُلْ : کہدیجئے فَادْرَءُوْا : تم ہٹادو عَنْ : سے اَنْفُسِكُمُ : اپنی جانیں الْمَوْتَ : موت اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
یہ ایسے (بد نصیب اور محروم) لوگ ہیں کہ خود تو بیٹھے رہے، (اپنے گھروں میں) اور اپنے (ان ہم نسب) بھائیوں کے لئے (جو کہ راہ حق میں کام آئے یوں) کہا کہ اگر یہ لوگ ہماری بات مان لیتے تو (اس طرح) قتل نہ ہوتے کہو (ان سے، اے پیغمبر ! ) کہ اچھا تو پھر تم لوگ خود اپنی جانوں سے (اپنے وقت پر آنے والی) موت کو ٹال کے دکھاؤ، اگر تم سچے ہو (اپنی ان باتوں میں)3
362 منافقوں کی منافقت کے ایک اور مظہر کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ خود تو اپنے گھروں میں بیٹھے رہے لیکن اپنے ان (ہم نسب) بھائیوں کے لیے [ جو کہ اللہ کی راہ میں کام آئے ] ان کی لیے یہ لوگ اس طرح کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ ہماری بات مان لیتے اور جنگ میں شریک نہ ہوتے بلکہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے یا اس طرح میدان کارزار میں شریک ہونے کی بجائے راستے سے ہی واپس ہوجاتے، جیسا کہ ہم نے کیا، تو آج یہ لوگ اس انجام سے دوچار نہ ہوتے، جس سے یہ اب ہوئے ہیں۔ سو اس طرح یہ لوگ تو اپنے تئیں اپنے آپ کو چالاک اور ہوشیار سمجھ رہے تھے اور ان مجاہدوں کو جو جہاد میں کام آئے یہ لوگ بیوقوف اور خسارے والا قرار دے رہے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی خلاف وزری کر کے انہوں نے اپنے لئے نقصان اور خسارے کا جو سودا کیا تھا اور وہ اس سے کہیں بڑھ کر اور اصل اور حقیقی خسارہ تھا۔ مگر یہ سمجھتے نہیں۔ اور یہی نتیجہ ہوتا ہے کفر و نفاق کی نحوست کا کہ اس سے انسان کی مت مار دی جاتی ہے اور وہ سیدھی بات کو بھی الٹا سمجھنے لگتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ اندھے اور اوندھے پن کے ہر شائبہ سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 363 موت کو اپنے وقت سے کوئی نہیں ٹال سکتا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو [ اے پیغمبر ] کہ اچھا تو پھر تم لوگ خود اپنے جانوں سے [ اپنے وقت پر آنے والے ] موت کو ٹال کر دکھاؤ اگر تم سچے ہو [ اپنی ان باتوں میں ] "۔ اور جب تم ایسا نہیں کرسکتے، اور ظاہر ہے کہ نہیں کرسکتے، اور یہ تمہارے بس میں نہیں ہے کہ تم اپنے آپ سے موت کو ٹال دو تو پھر تمہارا یہ کہنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے ؟ کہ اگر یہ لوگ ہمارا کہنا مان لیتے تو اس طرح نہ مارے جاتے۔ پس واضح ہوگیا کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے جس سے پہلے وہ آ نہیں سکتی۔ اور اپنے وقت مقرر پر آجانے کی صورت میں وہ کسی کے ٹالے سے ٹل نہیں سکتی۔ بہرحال آ کر رہے گی۔ تو پھر ایسے حیلے بہانے کرنے کا کیا فائدہ ؟ اور ایسی باتوں کی کیا تُک ؟ سوائے اپنی حماقت اور منافقت کے ثبوت کے اور اپنی یاس و حسرت میں اضافے کے۔ سو عقلمندی کا تقاضا یہ نہیں کہ انسان موت سے بھاگے کہ یہ تو ایک لاحاصل اور بےسود کوشش ہے، بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ انسان یہ کوشش کرے کہ وہ شہادت کی موت مر کر حیات جاودانی سے سرفراز و سرشار ہوجائے کہ اس صورت میں اس کیلئے سعادت ہی سعادت ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایمان و یقین کی دولت کس طرح امن و سکون بخشنے والی دولت ہے کہ اس سے انسان ہر حال میں مطمئن رہتا ہے اور اس کے لئے کسی بھی صورت میں کوئی خسارہ و نقصان نہیں ۔ اللّٰھُمَّ فَزِدْنَا مِنْہُ وَثَبِّتْنَا عَلَیْہ یَا ذَالْجِلال وَ الاِکْرَامِ ۔ جبکہ ایمان سے محروم انسان ہمیشہ موت سے ڈرتا اور خوف کھاتا رہتا ہے ۔ والعیاذ باللہ -
Top