Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 48
وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَۚ
وَيُعَلِّمُهُ : اور وہ سکھائے گا اس کو الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور دانائی وَالتَّوْرٰىةَ : اور توریت وَالْاِنْجِيْلَ : اور انجیل
اور اس کو اللہ خود ہی (بغیر کسی معلم اور استاذ کے) سکھائے گا کتاب اور حکمت (کے معارف) بھی، اور تورات و انجیل بھی،
108 پیغمبر کا علم براہ راست اللہ کی طرف سے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس کو اللہ خود سکھائے گا کتاب و حکمت بھی اور تورات و انجیل بھی۔ سو پیغمبر کی ایک امتیازی شان ہے کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کرتا ہے۔ دنیا میں کسی انسان کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کرتا۔ سو یہ پیغمبر کی ایک امتیازی شان ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں کسی سے نہیں پڑھتا، بلکہ اس کا علم براہ راست اللہ پاک ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ قادیانی دجال کی طرح نہیں کہ سکول میں مڈل فیل اور پھر اس کے بعد نبوت کا دعویٰ ۔ حضرات انبیائے کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ کے علوم براہ راست اللہ پاک کی طرف سے ہوتے ہیں۔ روایات میں ہے کہ حضرت عیسیٰ جب کچھ بڑے ہوئے تو ان کی والدہ ماجدہ ان کو استاد کے پاس پڑھانے کیلئے لے گئیں، تو استاد نے حسب معمول جب آپ سے کہا پڑھو بچے الف، آپ نے کہا الف۔ استاد نے کہا پڑھو بائ، تو حضرت عیسیٰ نے کہا کہ جناب پہلے الف کا معنی تو بیان کیجئے۔ استاد نے کہا کہ یہ تو حروف ہجا میں سے ہے، جن کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔ تو حضرت عیسیٰ نے فرمایا کہ جب آپ نے پہلا لفظ ہی بےمعنی پڑھایا تو پھر آپ آگے مجھے کیا پڑھائیں گے ؟ اور میں آپ سے کیا پڑھونگا ؟ استاد نے کہا کیا تم اس کے معنی جانتے ہو ؟ تو آپ نے کہا جی ہاں، پھر آپ نے اپنے وہ وہبی علوم بیان فرمانا شروع کردیئے، جو حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی طرف سے آپ کو عطا ہوئے تھے۔ تب استاد نے حیرت زدہ ہو کر کہا " کَیْفَ اُعَلِّمُ مَنْ ہُوَ اَعْلَمُ مِنِّیْ ؟ " کہ میں اس کو کیسے اور کیا پڑھاؤں جو مجھ سے بھی کہیں زیادہ اور بڑھ کر علم رکھتا ہے۔ یہ اس بارے مختلف روایات کا خلاصہ ہے (در منثور، بحوالہ حاشیہ جامع البیان) ۔ ایسی روایات سند کے اعتبار سے خواہ کمزور ہی کیوں نہ ہوں، لیکن معنی کے اعتبار سے من حیث المجموع یہ معنی ومطلب بہرحال درست ہے۔ اور جو مضمون ان روایات میں بیان کیا گیا ہے وہ بہرحال صحیح ہے، کہ پیغمبر کبھی کسی انسان سے کچھ پڑھتا سیکھتا نہیں بلکہ ان کا علم براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ والعلم عند اللہ سبحانہ و تعالیٰ ۔ فرشتہ جو کچھ ان کو سکھاتا بتلاتا ہے وہ محض واسطہ اور وسیلہ کے درجے میں ہوتا ہے۔ اور بس۔ ورنہ پیغمبر کا علم اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ 109 " الکتاب " سے یہاں پر مراد ؟ : " الکتاب " سے یہاں پر مراد یا تو جنس کتاب ہے، جس میں سب ہی آسمانی کتابیں آگئیں، جن میں قرآن حکیم بھی داخل ہے۔ سو یہ اس وقت ہوگا جبکہ آنجناب دوبارہ تشریف لائیں گے اور دنیا میں نزول اجلال فرمائیں گے۔ تو اس وقت اللہ پاک آپ کو اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے قرآن و سنت کے علوم سکھا دیگا ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ (روح، وغیرہ) ۔ اور یا " الکتاب " سے یہاں پر کتابت مراد ہے، کہ اللہ پاک آپ کو خط و کتابت بھی سکھا دیں گے۔ ( المراغی، القاسمی، صفوۃ، وغیرہ) ۔ جو بھی ہو یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ پیغمبر دنیا میں کسی انسان سے کبھی کچھ نہیں پڑھتا بلکہ ان کا علم براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ جل و علا شانہ ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو پیغمبر کی شان باقی سب مخلوق سے ممتاز اور نرالی ہوتی ہے۔ وہ دنیا میں بھی کسی سے نہیں پڑھتے بلکہ ان کا علم براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے ۔ علیہم الصلاۃ والسلام -
Top