Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 18
قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْكُمْ وَ الْقَآئِلِیْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَیْنَا١ۚ وَ لَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ
قَدْ يَعْلَمُ : خوب جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْمُعَوِّقِيْنَ : روکنے والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَالْقَآئِلِيْنَ : اور کہنے والے لِاِخْوَانِهِمْ : اپنے بھائیوں سے هَلُمَّ : آجاؤ اِلَيْنَا ۚ : ہماری طرف وَلَا يَاْتُوْنَ : اور نہیں آتے الْبَاْسَ : لڑائی اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : بہت کم
اللہ پوری طرح جانتا ہے تم میں سے ان لوگوں کو جو رکاوٹیں ڈالتے ہیں (راہ حق و صواب میں) اور جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے پاس آجاؤ اور وہ خود لڑائی میں حصہ نہیں لیتے مگر بالکل تھوڑا (اور محض برائے نام)
32 منافقوں کو سخت قسم کی تنبیہ : سو ایسے لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ پوری طرح جانتا ہے رکاوٹیں ڈالنے والوں کو۔ اس لئے وہ ان کو پورا پورا بدلہ دے گا جس کے یہ مستحق ہیں اپنے کرتوتوں کے باعث۔ سو یہ منافقین کا ایک گروہ تھا جو خود لڑنے اور دفاع کرنے کی بجائے دوسروں کو بھی روکتا اور ان کی حوصلہ شکنی کرتا تھا۔ قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ یہ منافقین مدینہ کا ایک گروہ تھا جو اپنے قومی اور نسبی بھائیوں یعنی انصار مدینہ کو جنگ سے روکتا تھا۔ اور یہ منافق لوگ ان سے کہتے تھے کہ محمد ﷺ اور انکے ساتھی تو بس ایک سر کھانے والے ہیں۔ اور یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جو کسی جماعت یا گروہ کی قلت کو بیان کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ نیز یہ منافق اس سے کہتے تھے کہ اگر محمد ﷺ اور انکے ساتھی گوشت ہوتے تو ابوسفیان اور انکے ساتھی ان سب کو کھا جاتے۔ سو ایسے میں تم لوگ انکے ساتھ جنگ میں جاکر کہاں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہو۔ (المراغی وغیرہ) ۔ سو ایسے منافقوں کو یہ سخت تنبیہ فرمائی گئی کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ کے علم سے باہر نہیں۔ وہ یہ سب کچھ دیکھتا اور جانتا ہے۔ اگر تم لوگ اپنی اس روش سے باز نہ آئے تو تم کو اس کا سخت بھگتان بھگتنا ہوگا۔ اس لیے اپنے بارے میں تم خود دیکھ اور سوچ لو۔ پھر نہ کہنا کہ ہمیں خبر نہ ہوئی تھی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین۔ 33 منافقوں کا اپنے بھائی بندوں کو منافقانہ مشورہ : سو ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ خود بھی جہاد میں شریک نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے پاس آجاؤ اور ہمارے پاس آ کر ہماری طرح آرام و عیش کرو۔ کہاں مسلمانوں کے ساتھ مل کر جان کھپانے جا رہے ہو۔ اور یہی حال ہوتا ہے ایمان سے محروم لوگوں کا کہ ان کے نزدیک دنیا اور اس کا عیش و عشرت ہی سب کچھ ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس طرح یہ لوگ ان دوسرے مخلصین کو بھی راہ حق اور شرف جہاد سے روکتے تھے اور اپنی محرومی کے ساتھ ساتھ ان کی محرومی کے لیے بھی کوشش کرتے تھے۔ اور اس طرح محرومی در محرومی اور جرم بالائے جرم کے مرتکب ہوتے اور یہ سمجھتے کہ ان کی ان شرارتوں اور شرانگیزیوں سے کوئی آگاہ نہیں۔ حالانکہ اللہ ان سے برابر اور پوری طرح آگاہ ہے۔ وہ ان کے ظاہر اور باطن کو ایک برابر جانتا ہے۔ اس لیے اس کے یہاں ان کو عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق اپنے کیے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ کفر ونفاق کے ہر شائبے سے محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top