Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 30
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ : اے نبی کی بیبیو مَنْ : جو کوئی يَّاْتِ : لائے (مرتکب ہو) مِنْكُنَّ : تم میں سے بِفَاحِشَةٍ : بیہودگی کے ساتھ مُّبَيِّنَةٍ : کھلی يُّضٰعَفْ : بڑھایا جائے گا لَهَا : اس کے لیے الْعَذَابُ : عذاب ضِعْفَيْنِ ۭ : دو چند وَكَانَ : اور ہے ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ يَسِيْرًا : آسان
اے نبی کی بیویو ! تم میں سے جس کسی نے ارتکاب کیا کسی کھلی بےحیائی کا تو اس کو (عام عورتوں کے مقابلے میں) دوہرا عذاب دیا جائے گا اور ایسا کرنا اللہ کے لئے بڑا آسان ہے
53 ازواج مطہرات سے خاص خطاب : سو اس میں ازواج مطہرات سے خطاب تکریم و تشریف فرمایا گیا ہے جو کہ متضمن ہے تنبیہ و تذکیر پر۔ { فَاحِشَۃٍ مَبَیِّنَۃٍ } سے یہاں مراد بدخلقی اور نافرمانی ہے۔ یعنی " النّشُوز و سُوْئُ الخلق " (صفوۃ : ج 2 ص 533) ۔ اور اہل علم نے تصریح فرمائی ہے کہ لفظ " فاحشہ " جب الف لام کے ساتھ معرفہ ہو کر آئے تو اس کے معنیٰ زنا اور لواط کے ہوتے ہیں۔ لیکن نکرہ استعمال ہو تو اس کے معنی مطلق معصیت و نافرمانی کے ہوتے ہیں۔ اور اگر موصوف ہو کر استعمال ہو جیسا کہ یہاں ہے ۔ کہ " مبینۃ " کی صفت لگی ہوئی ہے ۔ تو اس وقت اس سے مراد سوء معاشرت اور عدم ادائیگی حقوق زوجیت ہوتی ہے۔ اسی لئے حضرت ابن عباس نے اس کی تفسیر سوء الخلق ۔ بد خلقی ۔ سے کی ہے۔ نیز یہاں پر اس کا ذکر " من " کے کلمہ شرطیہ کے ساتھ ہوا ہے جسکے لئے تحقق اور وقوع ضروری نہیں ہوتا۔ سو یہ ایسے ہی ہے جیسے ۔ { لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ } ۔ (الزمر : 64) میں ہے۔ نیز جیسا کہ فرمایا گیا ۔ { لِلرَحْمٰن ولَدًا } ۔ (الزخرف :81) وغیرہ روح، قرطبی، ابن کثیر، معارف، جامع البیان وغیرہ) ۔ سو مطلب اس ارشاد کا یہ ہوگا کہ اگر تم میں سے کوئی بالفرض و التقدیر ایسی کسی فاحشہ مبینہ کا ارتکاب کریگی تو اس کو بنسبت دوسری عورتوں کے دوہرا عذاب دیا جائے گا کہ تمہارا مرتبہ اور مقام بہت بلند اور بےمثال ہے ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا - 54 جتنا مرتبہ بڑا، اتنی ہی ذمہ داری بڑی : سو ازواج مطہرات کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تم میں سے کسی نے بھی اگر کھلی بیحیائی کا ارتکاب کیا تو اس کو دوہرا عذاب دیا جائے گا کہ تمہارا مرتبہ اور مقام بہت بلند ہے۔ اور جتنا مرتبہ و مقام بڑا ہوتا ہے اتنی ہی ذمہ داری اور گرفت بھی سخت ہوتی ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے ۔ نزدیکاں رابیش بود حیرانی ۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ اوپر کی بات تو ازواج مطہرات کو پیغمبر کے ذریعے کہلائی گئی کہ اس کا آپ ﷺ کی زبان مبارک ہی سے کہلایا جانا موزوں اور مناسب تھا۔ لیکن اب یہاں پر اس آیت کریمہ میں انکو براہ راست خطاب کرکے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ پیغمبر کی بیویاں ہونے کی حیثیت سے ان کا مرتبہ و مقام اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت اونچا ہے۔ اور اس مرتبہ کے اعتبار سے ان کی ذمہ داریاں بھی بہت بڑی ہیں۔ لہذا اگر خدانخواستہ ان سے کوئی جرم سرزد ہوگیا تو اس کی سزا بھی انکو دوسری عام عورتوں کی بنسبت دوہری دی جائے گی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ازواج مطہرات کو تنبیہ فرمائی گئی کہ وہ اس بات کو یاد رکھیں کہ اگر بالفرض ان سے کوئی جرم صادر ہوا تو اس کو اس ترازو سے نہیں تولا جائے گا جس سے دوسروں کے جرائم تولے جاتے ہیں بلکہ ان کے اعمال کو الگ باٹ اور الگ ترازو سے تولا جائے گا اور دوسروں کی نسبت ان کو دوہرا عذاب دیا جائے گا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔ 55 اللہ کا قانون بےلاگ اور سب کے لیے یکساں : سو ارشاد فرمایا کہ " ایسا کرنا اللہ کیلئے بہت آسان ہے "۔ پس کبھی یہ خیال نہ کرنا کہ چونکہ ہم نبی کی بیویاں ہیں اس لئے کوئی پروا نہیں۔ اور جب نبی کی بیویوں کو بھی یہ فرمایا جا رہا ہے تو پھر دوسرے کس شمار و قطار میں ہوسکتے ہیں ؟ اور ان کیلئے کس قدر حزم و احتیاط کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ سو محض پیغمبر کی بیویاں ہونے کے اعتبار سے تم میں سے کسی کو اس کے جرم و قصور کی سزا دینا اللہ کیلئے کچھ بھی مشکل نہیں کہ اسکا قانون سب کیلئے ایک اور بےلاگ ہے۔ محض کسی نسبت کی بنا پر وہ کسی سے کوئی رعایت نہیں کرتا ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اس تنبیہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ ازواج مطہرات میں سے کسی کے بارے میں اس طرح کے کسی جرم کا کوئی خدشہ و اندیشہ تھا ۔ حاشا و کلا ۔ بلکہ اس ارشاد ربانی سے ایک طرف تو محض انکو ان کی ذمہ داریوں اور انکے مقام و مرتبہ کی عظمت شان کے بارے میں تنبیہ و تذکیر فرمانا ہے۔ اور دوسری طرف اس میں پوری امت کیلئے یہ درس عظیم ہے کہ جب نبی کی بیویوں کیلئے بھی ان کی اس قدر بےمثال عظمت شان کے باوجود کوئی استثنا نہیں تو پھر اور کسی کیلئے اس کا کیا سوال پیدا ہوسکتا ہے ؟ سو اسکا قانون سب کیلئے ایک اور یکساں ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف اس میں ازواج مطہرات کے لیے اور ان کے توسط سے پوری امت کے لیے تنبیہ و تذکیر ہے تاکہ وہ ایسی کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔
Top