Tafseer-e-Madani - Faatir : 10
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِیْعًا١ؕ اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَمْكُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ١ؕ وَ مَكْرُ اُولٰٓئِكَ هُوَ یَبُوْرُ
مَنْ : جو کوئی كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْعِزَّةَ : عزت فَلِلّٰهِ : تو اللہ کے لیے الْعِزَّةُ : عزت جَمِيْعًا ۭ : تمام تر اِلَيْهِ : اس کی طرف يَصْعَدُ : چڑھتا ہے الْكَلِمُ الطَّيِّبُ : کلام پاکیزہ وَالْعَمَلُ : اور عمل الصَّالِحُ : اچھا يَرْفَعُهٗ ۭ : وہ اس کو بلند کرتا ہے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَمْكُرُوْنَ : تدبیریں کرتے ہیں السَّيِّاٰتِ : بری لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۭ : عذاب سخت وَمَكْرُ : اور تدبیر اُولٰٓئِكَ : ان لوگوں هُوَ يَبُوْرُ : وہ اکارت جائے گی
جو کوئی عزت چاہتا ہو تو (وہ جان لے کہ) عزت تو سب اللہ ہی کے پاس ہے اسی کی طرف چڑھتے ہیں پاکیزہ کلمات اور عمل صالح اس کو اوپر اٹھاتا ہے اور جو لوگ بری چالیں چلتے ہیں (حق کے مقابلے میں) ان کیلئے بڑا سخت عذاب ہے اور ان کی یہ چال بازیاں خود نابود ہو کر رہیں گی1
23 عزت سے سرفرازی کے صحیح طریقے کی تعلیم و تلقین : سو عزت سے سرفرازی کے لیے صحیح طریقے کی تعلیم و تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ جو کوئی عزت چاہتا ہو تو وہ جان لے کہ عزت سب کی سب اللہ ہی کیلئے ہے۔ پس تم سب لوگ اسی سے عزت مانگو کہ وہ اسی کی عطا و بخشش سے مل سکے گی۔ یہاں در اصل ایک بیماری کی نشاندہی فرمائی گئی اور اس کا علاج بھی ارشاد فرما دیا گیا ہے۔ یہ بیماری جو کل بھی تھی اور آج بھی ہے اور جس نے کل بھی بہت لوگوں کو حق سے محروم رکھا اور وہ آج بھی بہتوں کو حق سے محروم کر رہی ہے۔ اور یہ طلب عزت اور ہوس جاہ کی بیماری ہے۔ مشرکین عرب نے اسی عزت کے پانے کے خیال سے وہ جھوٹے اور بےبنیاد معبود گھڑ رکھے تھے جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔ قرآن کہتا ہے ۔ { وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِہَۃً لِّیَکُوُنُوْا لَہُمْ عِزًّا } ۔ ( مریم : 81) " انہوں نے اللہ کے سوا طرح طرح کے معبود گھڑ لئے تاکہ وہ ان کے لئے عزت کا باعث بنیں " اور اسی بنا پر مشرکین عرب دین حق کے خلاف صف آرا ہوگئے تھے اور آج کل کے قبر پرست کلمہ گوؤوں نے جو طرح طرح کے ناموں سے شرک و بدعت کے اڈے جابجا قائم کر رکھے ہیں اس کا ایک بڑا سبب اور اہم داعیہ بھی یہی چیز ہے۔ حالانکہ حق اور حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں عزت کا سامان نہیں، دھوکے کے اسباب ہیں۔ ان سے عزت نہیں ملتی ذلت و ادبارہی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ قرآن کہتا ہے " ہرگز نہیں، یہ لوگ جن کی پوجا کر رہے ہیں وہ کل قیامت کے روز ان کی عبادت کا انکار کردیں گے اور ان کے دشمن ہوجائیں گے " ۔ { کَلا سَیْکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا } ۔ (سورئہ مریم : آیت نمبر 82) ۔ سو قرآن حکیم نے طلب عز و جاہ کے اس مہلک مرض کی تشخیص اور نشاندہی بھی فرما دی۔ اور اس کے علاج کیلئے نسخہ کیمیا بھی بتادیا کہ عزت سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ پس تم لوگ صحیح معنیٰ میں اللہ والے بن جاؤ۔ سچی اور حقیقی عزت سے سرشار ہوجاؤ گے اور اس کے ساتھ ہی اس کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیا گیا جسکی تفصیل اگلے حاشیے میں آرہی ہے ۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 24 حقیقی عزت سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ایمان اور عمل صالح : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ عزت اور ۔ حقیقی عزت ۔ سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ایمان صادق اور عمل صالح ہے۔ سو یہ ہے وہ طریقہ جس کے ذریعے اللہ پاک کے یہاں سے عزت حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس میں دو چیزیں ارشاد فرمائی گئی ہیں اور دو ہی چیزیں دراصل ضرورت ہوتی ہیں۔ مثلاً اگر آپ رائفل سے فائر کر کے گولی ایک خاص نشانے تک پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو دو چیزوں کی ضرورت ہوگی۔ ایک یہ کہ اس کارتوس اور گولی میں مواد صحیح ہو جو آپ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ اس کو رائفل میں خاص طریقے سے ڈال کر چلائیں تب تو اس سے شیر بھی ہلاک ہوجائے گا ورنہ اس سے ایک بلی بھی نہیں مرسکتی۔ پس اللہ پاک کے یہاں جو چیز پہنچنے کے قابل ہے وہ ہے " الکَلِمُ الطَّیّب " ۔ " پاکیزہ کلمات " جس کا سب سے اہم فرد کلمہ توحید ہے۔ اور ابن عباس ؓ نے " الکَلِمُ الطَّیّب " سے کلمہ ایمان ہی مراد لیا ہے۔ اور اس کے ساتھ قرآن و سنت کے وہ تمام کلمات طیبات بھی جو اللہ اور اس کے رسول کے ارشادہ فرمودہ ہیں۔ اور یہی کلمہ طیب اساس و بنیاد ہے نور ایمان و یقین کی۔ اور اس پاکیزہ کلام " الکَلِمُ الطَّیّب " کو اوپر اٹھانے والی اور اللہ پاک کے حضور پہنچانے والی چیز نیک عمل ہے جس میں سب سے پہلے ایمان و یقین ہے۔ اور اس کے بعد تمام اعمال و عبادات۔ پس پاکیزہ کلام اور عمل صالح یعنی ایمان و یقین اور عمل و کردار میں جو کوئی جتنا بھی بڑھتا جائے گا اتنا ہی اللہ پاک کے یہاں اجر وثواب اور عزت و مقام حاصل کرتا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک کی وہ تمام محبوب و مقدس ہستیاں جنہوں نے اس نسخے کو اپنایا وہ ایسی انمٹ عزت و عظمت سے مشرف و سرفراز ہوئیں کہ سینکڑوں ہزاروں برس گزر جانے پر بھی آج تک ان کا نام عزت و عظمت اور عقیدت و محبت سے لیا جاتا ہے ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین۔ اس مقام سے متعلق مزید تفصیل انشاء اللہ اپنی مکمل اور مفصل تفسیر میں عرض کریں گے اگر اللہ پاک کی طرف سے توفیق و عنایت شامل حال رہی ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَہُوَ الْمُیَسِّرُلِکُلِّ عَسِیْر والْمُوَفِّقُ لِکُلِّ رُشْْدٍ وَصَوَابٍ ۔ بہرکیف سچی اور حقیقی عزت سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ایمان اور عمل صالح ہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔ 25 حق کے مقابلے میں بری چالیں چلنے والوں کیلئے بڑا برا انجام : کہ ایک طرف تو ایسے لوگوں کیلئے بڑا سخت عذاب ہوگا اور دوسری طرف ان کی ان چالوں سے کچھ بگڑے گا نہیں بلکہ حق باقی و غالب رہے گا اور باطل ہر طرح سے سر ٹکرانے کے باوجود خائب و خاسر ہوگا۔ چناچہ تاریخ اور واقعات نے اس کی عملی تصدیق کردی۔ نور توحید پھیلا۔ حق کا جھنڈا لہرایا اور باطل سرنگوں ہوا ۔ والحمد للہ رب العلمین ۔ سو اس طرح کی چالیں چلنے والے اصل میں اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور اپنے لیے برے انجام اور عذاب شدید کا سامان کرتے ہیں جو کہ خساروں کا خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کیونکہ حق ایک ایسی متاع مشترک ہے جو سب کی صلاح و فلاح کا ذریعہ و وسیلہ اور ان کی بقا کا کفیل وضامن ہے۔ پس اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو وہ خود اپنی ہی آنکھیں پھوڑتا اور خود اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مارتا ہے۔ سو حق کے خلاف بری چالیں چلنے والوں کا انجام بڑا برا ہے کہ ان کے لیے بڑا سخت عذاب بھی ہے۔ اور ان کی چالیں بھی نابود ہونگی کہ آسمان پر تھوکا خود انسان کے اپنے ہی منہ پر آلگتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حق کے مقابلے میں چالیں چلنے والوں کا انجام بہت برا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top