Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 15
فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ اَهْلِیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ
فَاعْبُدُوْا : پس تم پرستش کرو مَا شِئْتُمْ : جس کی تم چاہو مِّنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس کے سوائے قُلْ : فرمادیں اِنَّ : بیشک الْخٰسِرِيْنَ : گھاٹا پانے والے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : گھاٹے میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو وَاَهْلِيْهِمْ : اور اپنے گھر والے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ : روز قیامت اَلَا : خوب یاد رکھو ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ الْخُسْرَانُ : گھاٹا الْمُبِيْنُ : صریح
سو (میرا یہ اعلان سننے کے بعد) تمہاری مرضی کہ تم جس کی چاہو عبادت (و بندگی) کرو اس کے سوا کہو کہ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اصل (اور حقیقی) خسارے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے (حق سے منہ موڑ کر) خسارے میں ڈالا ہوگا اپنے آپ کو اور اپنے تعلق داروں کو قیامت کے روز آگاہ رہو کہ یہی ہے کھلا ہوا خسارہ (اور نقصان)2
32 منکرین و مشرکین سے اظہار بیزاری کا اعلان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " میں تو بہرحال اسی وحدہ لا شریک کی عبادت و بندگی کروں گا "۔ اب تم اگر نہیں مانتے تو تم اس کے سوا جس کی چاہے بندگی کرو کہ ہر کسی کو اپنے ارادئہ و اختیار کی آزادی ہے۔ اور اصل مدار انسان کی اپنی نیت و ارادے اور اس کی مرضی و اختیار ہی پر ہے۔ سو جیسا کرے گا ویسا بھرے گا۔ پس تم اس کے سوا جس کی بندگی چاہو کرو مگر اس کا بھگتان تم کو بہرحال بھگتنا ہوگا۔ میں بہرحال تمہارے اس رویے سے قطعی طور پر بری اور بیزار ہوں۔ اس کے بعد بھی اگر تم نے میری بات کو نہ مانا اور راہ حق و ہدایت کو نہ اپنایا تو میرا تم سے کوئی تعلق نہیں۔ تمہارا راستہ الگ میرا الگ۔ اس کے بعد ہم پر تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں۔ 33 روز قیامت کا خسارہ سب سے بڑا خسارہ ۔ والعیاذ باللہ : اس سے واضح فرما دیا گیا کہ سب سے بڑا اور انتہائی ہولناک خسارہ قیامت کا خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " سخت خسارے میں ہیں وہ لوگ جنہوں نے خسارے میں ڈالا ہوگا اپنی جانوں اور مالوں کو قیامت کے دن "۔ سو سب سے بڑا اور حقیقی خسارہ قیامت کے دن کا خسارہ ہے کہ اس روز اس کا یہ خسارہ و نقصان اپنی اصل شکل میں اور پوری طرح ظاہر و مکشوف ہوجائے گا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو جن لوگوں نے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو قیامت کے دن کے اس ہولناک خسارے میں مبتلا کیا ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ وہی لوگ اصل اور حقیقی خسارے والے ہوں گے کیونکہ اس کے سوا باقی جتنے بھی خسارے ہیں وہ عارضی اور آنی فانی اور ایسے خسارے ہیں جن کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔ اور ان کی تلافی ممکن ہوسکتی ہے۔ مگر قیامت کا وہ خسارہ ایسا ہولناک خسارہ ہوگا کہ اس کی تلافی وتدارک کی پھر کوئی صورت ممکن نہیں ہوگی۔ سو وہ خسارہ دائمی اور ابدی ہوگا۔ سو بڑے ہی بدنصیب اور انتہائی بدبخت ہیں وہ لوگ جو دنیا کی چند روزہ عارضی اور فانی لذتوں کے پیچھے لگ کر اپنی آخرت برباد کردیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ یہاں پر یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ یہاں پر۔ { انفسہم } ۔ کے ساتھ ۔ { اہلیہم } ۔ کا اضافہ بھی فرمایا گیا ہے جس سے اس اہم حقیقت کی طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ ہر شخص پر اپنی ذات کے ساتھ اپنے اہل و عیال کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ جیسا کہ صحیحین وغیرہ کی مشہور اصولی حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ۔ " کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ " ۔ پس انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے اہل و عیال کی نجات کی بھی فکر و کوشش کرے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید ۔ 34 حقیقی خسارے کی نشاندہی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور " الا " کے حرف تنبیہ و تحضیص کے ساتھ فرمایا گیا کہ " آگاہ رہو کہ یہی ہے کھلا ہوا خسارہ "۔ جس جیسا دوسرا کوئی خسارہ نہیں ہوسکتا۔ اور جس کی تلافی وتدارک کی پھر کوئی صورت ممکن نہ ہوگی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ ابنائے دنیا چونکہ دنیا کی عارضی لذتوں پر ریجھے ہوئے ہیں اور دنیا کی چہل پہل اور چمک دمک ان کی آنکھوں کو خیرہ کیے ہوئے ہے۔ اس کے وقتی مفادات اور عارضی فائدے ہی سب کچھ ہیں اس لیے آخرت کے نفع و نقصان کی بات کا ایسے لوگوں کے دل و دماغ میں اترنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے یہاں پر " الا " کا حرف تنبیہ لاکر خبردار فرما دیا گیا ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے۔ تسلیم کرے یا نہ کرے۔ حق اور حقیقت بہرحال یہی ہے کہ آخرت کا وہ خسارہ ہی سب سے بڑا اور ہولناک خسارہ اور خسران مبین ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اس لیے سب سے بڑے اور سب سے ہولناک خسارے کی تشخیص و تعیین اور اس کی نشاندہی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ آخرت کا یہ خسارہ ہی سب سے بڑا اور کھلا ہوا خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top