Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 30
اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ٘
اِنَّكَ : بیشک تم مَيِّتٌ : مرنے والے وَّاِنَّهُمْ : ار بیشک وہ مَّيِّتُوْنَ : مرنے والے
بیشک آپ کو بھی مرنا ہے (اے پیغمبر ! ) اور ان سب کو بھی بہر حال مرنا ہے
68 موت کا مزہ ہر کسی نے بہرحال چکھنا ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " بلاشبہ آپ نے بھی ۔ اے پیغمبر۔ مرنا ہے اور یقینا ان سب نے بھی بہرحال مرنا ہے "۔ تو پھر ان دشمنانِ حق کے لئے آپ کی موت سے خوشی کا کون سا موقع ہوسکتا ہے جو یہ اس کی انتظار میں لگے ہیں ؟ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا ۔ { اَمْ یَقُوْلُوْن شَاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْن } ۔ یعنی ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ ایک شاعر ہے جس نے باقی لوگوں اور دوسرے شاعروں کی طرح مر مٹ جانا ہے اور اس طرح اس کا لایا ہوا دین بھی ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا اس کے حادثہ موت تک انتظار کرلو۔ اس کے بعد معاملہ خود ٹھیک ہوجائے گا۔ تو اس پر ان بدبختوں کو بتایا گیا کہ مرنا تو تم نے بھی ہے۔ پھر تمہارے لئے پیغمبر کی موت میں خوشی کی کون سی بات ہوسکتی ہے ؟ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ لفظ " میت " اور " میت " دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ " میت " ۔ بالتخفیف۔ اس کو کہتے ہیں جو بالفعل مرچکا ہو۔ اور " میت " ۔ بالتشدید ۔ اس کو کہا جاتا ہے جس نے آئندہ مرنا ہو۔ ابھی بالفعل اس کی موت واقع نہ ہوئی ہو۔ عربی کا شاعر کہتا ہے ۔ فَمَنْ کَانَ ذَا رُوْحٍ فَذَالِکَ مَیَّتٌ۔ وَمَا الْمَیْتُ اِلَّا مَنْ کَانَ اِلٰی القَبْرِ یُحْمَلُ ۔ یعنی " جو بھی ذی روح ہوگا اس نے بہرحال مرنا ہے۔ اور میت ۔ یعنی بالفعل مرا ہوا شخص۔ وہ ہوتا ہے جس کو قبر کی طرف اٹھا کرلے جایا جا رہا ہو۔ بہرکیف اس آیت کریمہ میں حضرت نبی اکرم ﷺ کی موت کی پیشگی خبر دے دی گئی تاکہ کل آپ ﷺ کے انتقال کے موقع پر امت اختلاف میں نہ پڑجائے۔ جیسا کہ آپ ﷺ کے انتقال کے موقع پر واقعتہً حضرت عمر۔ ؓ ۔ نے بھی ایسے ہی کیا تھا جس پر حضرت ابوبکر صدیق ۔ ؓ ۔ نے آنحضرت ﷺ کی وفات اور آپ ﷺ کے انتقال پر ملال کے بارے میں جن قرآنی آیات کریمہ سے استدلال و استشہاد کیا تھا ان میں یہ آیت کریمہ بھی تھی۔ (روح، قرطبی، ابن کثیر، مراغی، مدارک، خازن اور صفوہ وغیرہ) ۔
Top