Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 45
وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ
وَاِذَا : اور جب ذُكِرَ اللّٰهُ : ذکر کیا جاتا ہے اللہ وَحْدَهُ : ایک۔ واحد اشْمَاَزَّتْ : متنفر ہوجاتے ہیں قُلُوْبُ : دل الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ ۚ : آخرت پر وَاِذَا : اور جب ذُكِرَ : ذکر کیا جاتا ہے الَّذِيْنَ : ان کا جو مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اِذَا : تو فورا هُمْ : وہ يَسْتَبْشِرُوْنَ : خوش ہوجاتے ہیں
اور جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو (شرک کے ماروں کا حال یہ ہوتا ہے کہ) کڑھنے (اور بگڑنے) لگتے ہیں دل ان لوگوں کے جو ایمان (و یقین) نہیں رکھتے آخرت پر اور جب ذکر کیا جاتا ہے اس کے سوا دوسروں کا تو یکایک کھل کھلا اٹھتے ہیں (شرک کے یہ روگی)
89 مشرکوں کی عقیدئہ توحید سے چڑ اور علامہ آلوسی کا ایسے مشرکوں کے حال پر رونا : سو اس سے اہل کفر و شرک کی عقیدئہ توحید سے چڑ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ علامہ آلوسی بغدادی نے اپنے دور کے مشرکوں کے بارے میں یہی رونا رویا ہے۔ یہی حال آج کے کلمہ گو مشرکوں کا ہے کہ توحید خالص اور قرآن و سنت کے صاف بیان سے ان کے تیور بگڑنے اور انداز بدلنے لگتے ہیں۔ ان کے دل کڑھنے اور چہروں کے رنگ متغیر ہونے لگتے ہیں۔ اور جب اس کے برعکس ان کی خودساختہ سرکاروں اور ہستیوں اور ان سے متعلق جھوٹ موٹ کے قصے سنائے جائیں تو ان کے ذکر پر یہ لوگ اچھل پڑتے ہیں اور طرح طرح کے نعرے لگانے لگتے ہیں اور آہ و واہ کے ڈونگرے برسانے لگتے ہیں۔ مشہور حنفی عالم، صاحب روح المعانی مفسر آلوسی بغدادی ۔ (رح) ۔ نے اس مقام پر اپنے دور کے اسی طرح کے کلمہ گو مشرکوں کے ایسی ہی شرکیات کا رونا جس درد بھرے انداز میں رویا ہے وہ دیکھنے کے قابل ہے۔ نیز وہ لکھتے ہیں کہ ایک روز میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو کہ ایک مردہ بزرگ کو حاجت روائی کے لئے پکار رہا تھا۔ تو میں نے اس سے کہا کہ تو اللہ کو کیوں نہیں پکارتا جو کہ ہر جگہ ہے اور ہر کسی کی سنتا ہے ؟ تو وہ سخت غصے ہوگیا اور یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ شخص بزرگوں کا منکر ہے۔ نیز لکھتے ہیں کہ میں نے بعض لوگوں کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا کہ ولی و بزرگ اللہ کے مقابلے میں جلد حاجت روائی کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ علامہ آلوسی لکھتے ہیں یہ کھلا کھلم کفر ہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر روح المعانی) ۔ یہ تو انہوں نے ایک صدی سے بھی زیادہ پہلے کے کلمہ گو مشرکوں کے حال بد کا رونا رویا ہے جبکہ ہمارے اس دور اور ہمارے ملک کا حال تو اس سے کہیں بڑھ کر برا اور بدتر ہوچکا ہے۔ کفر و شرک کا کاروبار کھلے عام اور طرح طرح سے چلایا اور پھیلایا جا رہا ہے۔ حق کو باطل اور باطل کو حق ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کی فلسفہ طرازیوں اور سخن سازیوں سے کام لیا جا رہا ہے۔ اور بہت جگہوں میں تو وقت کی حکومتوں کی سرپرستی میں ایسا کیا جا رہا ہے۔ کتنی قبریں ایسی ہیں جن کو منوں کے حساب سے عرق گلاب سے غسل دیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ فَاِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکٰی وَہُوَ الْمُسْتَعَانُ ۔ سو پیغمبر کو ایسے لوگوں کے بارے میں ہدایت فرمائی گئی کہ آپ ایسے لوگوں کے بارے میں اپنے رب کے حضور اس طرح عرض کریں کہ اے اللہ آسمانوں اور زمین کو بغیر کسی نمونے اور مثال کے وجود میں لانے والے اور نہاں وعیاں کو ایک برابر جاننے والے۔ تو ہی فیصلہ فرمائے گا ان لوگوں کے درمیان ان تمام باتوں کے بارے میں جن میں یہ اختلاف کر رہے ہیں۔ سو ان کا معاملہ تیرے ہی حوالے ہے۔ یہ ہمارے بس سے باہر ہیں۔ پس تو خود ہی ان سے نمٹ۔
Top