Tafseer-e-Saadi - Ar-Ra'd : 41
وَ لَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ مِنْ سُوْٓءِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ بَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مَا لَمْ یَكُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : ہو لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا مَا فِي الْاَرْضِ : اور جو کچھ زمین میں جَمِيْعًا : سب کا سب وَّمِثْلَهٗ : اور اتنا ہی مَعَهٗ : اس کے ساتھ لَافْتَدَوْا : بدلہ میں دیں وہ بِهٖ : اس کو مِنْ : سے سُوْٓءِ : برے الْعَذَابِ : عذاب يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ : روز قیامت وَبَدَا لَهُمْ : اور ظاہر ہوجائے گا ان پر مِّنَ اللّٰهِ : اللہ (کی طرف) سے مَا : جو لَمْ يَكُوْنُوْا : نہ تھے وہ يَحْتَسِبُوْنَ : گمان کرتے
اور انہوں نے اس کو ایک اور بار بھی دیکھا ہے
(وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى) ۔ یعنی رسول اللہ نے جبرائیل کو دوسری دفعہ اپنی طرف اترتے ہوئے دیکھا۔ (عند سدرۃ المنتھی) سدرۃ المنتھی کے پاس۔ سدرۃ المنتھی ساتویں آصمان پر بیری کا بہت بڑا درخت ہے اور اسے سدرۃ المنتھی اس لیے کہا جاتا ہے کہ زمین سے جو چیز اوپر کی طرف عروج کرتی ہے اس کے پاس آکر رک جاتی ہے اور الہ تعالیٰ کی مخلوق سے جو وحی وغیرہ نازل ہوئی ہے یہاں آکر ٹھہر جاتی ہے یا اس بنا پر سدرۃ المنتھی کہا جاتا ہے کہ یہ مخلوقات کے علم کی انتہائی حد ہے، نیز اس نام سے موسوم کیے جانے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ آسمانوں اور زمین کے اوپر واقع ہے اور سدرۃ المنتھی اس کی بلندی کی انتہا ہے اس کے علاوہ بھی کوئی سبب ہوسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top