Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 53
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اَسْرَفُوْا : زیادتی کی عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں لَا تَقْنَطُوْا : مایوس نہ ہو تم مِنْ : سے رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی رحمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَغْفِرُ : بخش دیتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ (جمع) جَمِيْعًا ۭ : سب اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : مہربان
کہو (ان سے میری طرف سے کہ) اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے زیادتی کی اپنی جانوں پر کہ مایوس نہ ہوؤ تم اللہ کی رحمت سے بیشک اللہ (اپنے کرم و عنایت سے) بخشش فرماتا ہے سب گناہوں کی بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے
99 اللہ کے بندوں کے لیے اعلان رحمت کا حکم وارشاد اور اہل بدعت کے ایک مظالطے کا جواب : سو پیغمبر کو خطاب کر کے اس اعلان رحمت کی ہدایت فرمائی گئی کہ " ۔ ان سے میری طرف سے ۔ کہو کہ اے میرے وہ بندو جنہوں نے زیادتی کرلی اپنی جانوں پر "۔ یعنی آپ ہمارے رسول اور نمائندہ ہونے کے اعتبار سے ہمارا یہ پیغام ہمارے بندوں کو پہنچا دیں۔ سو یہ ارشاد ربانی بالکل اسی طرح کا ہے جس طرح کہ بادشاہ کا کوئی نمائندہ بادشاہ کی طرف سے کوئی فرمان اس کی رعایا کو پڑھ کر سناتا ہے۔ تو اس کے لئے وہ بعینہ وہی الفاظ اور وہی صیغے دوہراتا اور استعمال کرتا ہے جو بادشاہ نے کہے ہوتے ہیں۔ اور وہ انہیں اپنی طرف منسوب کرکے اس طرح کہتا اور ادا کرتا ہے کہ گویا وہ الفاظ و کلمات خود اس کے اپنے ہیں۔ حالانکہ وہ حقیقت میں اس کے نہیں بلکہ بادشاہ کے الفاظ و کلمات ہوتے ہیں۔ اور اس میں دراصل بلاغت کا یہ اسلوب کار فرما ہوتا ہے کہ بادشاہ کے نمائندے کی حیثیت محض ایک ذریعے اور وسیلے کی ہوتی ہے۔ اور ایسا کہ گویا کہ اس کی زبان سے بادشاہ خود بول رہا ہے۔ اور اس شخص کی اپنی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ پس اہل بدعت اور ان کے بعض بڑے تحریف پسندوں کا یہ کہنا کہ سب لوگ حضور کے بندے ہیں قرآن کی تفسیر نہیں تحریف ہے۔ اور یہ قرآن پاک کی دعوت اور نبی اکرم ۔ ﷺ ۔ کی تعلیم و تبلیغ کی نفی کے مترادف ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کیونکہ حضور ﷺ کی اس پوری دعوت و تبلیغ کا تو حاصل اور خلاصہ ہی یہ ہے کہ دنیا کو خدائے واحد کی عبدیت و بندگی کا درس دیا جائے۔ اور آپ ﷺ نے اپنی امت کو صاف اور صریح طور پر حکم ارشاد فرمایا کہ تم سب اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ " کونوا عباد اللہ اخوانا " ۔ اور قرآن حکیم میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے کہ " کسی بشر کیلئے یہ ممکن نہیں کہ اللہ اس کو کتاب اور حکم سے نوازے اور اس کو نبوت ۔ و رسالت ۔ سے سرفراز فرمائے۔ پھر وہ اس کے بعد لوگوں سے کہے کہ تم لوگ میرے بندے بن جاؤ اللہ کو چھوڑ کر۔ بلکہ وہ بھی یہی کہے گا کہ تم لوگ اللہ والے بن جاؤ اس بنا پر کہ تم لوگ اللہ کی کتاب ۔ دوسروں کو ۔ سکھاتے ہو۔ اور اس بنا پر کہ تم لوگ خود پڑھتے ہو اور نہ ہی وہ تم لوگوں کو یہ حکم دے سکتا ہے کہ تم فرشتوں اور پیغمبروں کو اپنا رب قرار دے دو ۔ کیا وہ تم لوگوں کو کفر کا حکم دے سکتا ہے ؟ اس کے بعد تم مسلمان ہوچکے ہو ؟ (آل عمران : 79-80) ۔ سو اس ارشاد ربانی میں ۔ { ایامرکم بالکفر بعد اذ انتم مسلمون ؟} ۔ کے استفہامی کلمات کریمہ سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ کے بندوں کو اس کے سوا کسی اور کے بندے قرار دینا کفر ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ تو پھر یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ۔ ﷺ ۔ ان کو اپنے ہی بندے قرار دینے لگیں اور " عبد الشمس " وغیرہ کی جگہ " عبد محمد " کا درس دینے لگیں ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ تعجب ہوتا ہے کہ اہل بدعت کے یہ تحریف پسند خوف خدا سے اس حد تک عاری کیوں ہوجاتے ہیں اور یہ لوگ اللہ کے کلام میں اس حد تک تحریف پر آمادہ کس طرح ہوجاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر لحاظ سے اپنی حفظ وامان اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 100 گنہگاروں کے لیے گناہوں کی بخشش کا مژدئہ جانفزا : سو ایسے گنہگاروں کے لیے ارشاد فرمایا گیا کہ " تم اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہوؤ بیشک اللہ بخشش فرماتا ہے سب گناہوں کی "۔ سبحان اللہ ! کیا کہنے اس لطف و کرم اور درس امید و رجا کے کہ تاکید کے ساتھ سب گناہوں کی معافی کا مژدہ سنایا جا رہا ہے۔ " ذنوب " خود جمع ہے جو سب ہی گناہوں کو عام اور شامل ہے۔ اور پھر " جمیعاً " سے اس کی تاکیدمزید فرما دی گئی۔ سو ہم جیسے گناہ گاروں کے لئے اس سے بڑھ کر مسرت و شادمانی اور حوصلہ افزائی کا مقام اور کیا ہوسکتا ہے۔ اسی لئے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک میں ۔ عظمت و شان کے اعتبار سے ۔ سب سے بڑی آیت " آیت الکرسی " ہے۔ اور خیر و شر کے اصول و مبادی کے اعتبار سے سب سے جامع آیت ۔ { اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرَ بالْعَدْلِ وَالاِحْسَانِ } ۔ الخ کی آیت کریمہ ہے۔ اور سب سے زیادہ خوشی و مسرت اور کشائش کا باعث یہ آیت کریمہ ہے۔ (ابن جریر، ابن کثیر وغیرہ) ۔ فَاغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ کُلَّہَ دِقَّہ وَجلَّہ، سِرَّہ وَعَلانِیَتَہ، اَوَّلَہ وَاٰٰخِرَہ، مَا اَعْلَمُ بِہٖ ومَا لَا اَعْلُمُ یَا اَکْرَمَ الاکرمین وَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔ سو اس ارشاد ربانی سے مشرکین کی ایک بڑی غلط فہمی کا قلع قمع فرما دیا گیا۔ وہ یہ کہ مشرک انسان اپنے شرک کی بنا پر جن مختلف اور ہولناک قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہوتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کو خداوند قدوس کی رحمت اور اس کی بخشش پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ اپنے گمان کے مطابق کچھ فرضی وسیلے اور واسطے گھڑتا ہے اور کہتا ہے کہ میری بخشش انہی کے ذریعے ہوسکے گی۔ سو اس ارشاد ربانی سے اس غلط فہمی اور اس مشرکانہ فلسفے کی جڑ نکال دی گئی اور اعلان فرما دیا گیا کہ میرے ان بندوں سے جنہوں نے زیادتی کی اپنی جانوں پر ان سے کہہ دو کہ اللہ سب گناہوں کی بخشش فرماتا ہے۔ پس وہ صدق دل سے اللہ کی طرف رجوع کریں اور براہ راست اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ اسی لیے قرآن وسنت کی نصوص قیمہ میں رب اغفرلی اور ربنا اغفرلنا جیسے کلمات کریمہ سے براہ راست اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کرنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top