Tafseer-e-Madani - Az-Zumar : 8
وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِیْبًا اِلَیْهِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَهٗ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِیَ مَا كَانَ یَدْعُوْۤا اِلَیْهِ مِنْ قَبْلُ وَ جَعَلَ لِلّٰهِ اَنْدَادًا لِّیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ١ؕ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِیْلًا١ۖۗ اِنَّكَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ
وَاِذَا : اور جب مَسَّ : لگے پہنچے الْاِنْسَانَ : انسان ضُرٌّ : کوئی سختی دَعَا رَبَّهٗ : وہ پکارتا ہے اپنا رب مُنِيْبًا : رجوع کر کے اِلَيْهِ : اس کی طرف ثُمَّ اِذَا : پھر جب خَوَّلَهٗ : وہ اسے دے نِعْمَةً : نعمت مِّنْهُ : اپنی طرف سے نَسِيَ : وہ بھول جاتا ہے مَا : جو كَانَ يَدْعُوْٓا : وہ پکارتا تھا اِلَيْهِ : اس کی طرف ۔ لیے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَجَعَلَ : اور وہ بنا لیتا ہے لِلّٰهِ : اللہ کے لیے اَنْدَادًا : (جمع) شریک لِّيُضِلَّ : تاکہ گمراہ کرے عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭ : اس کے راستے سے قُلْ : فرمادیں تَمَتَّعْ : فائدہ اٹھا لے بِكُفْرِكَ : اپنے کفر سے قَلِيْلًا ڰ : تھوڑا اِنَّكَ : بیشک تو مِنْ : سے اَصْحٰبِ النَّارِ : آگ (دوزخ) والے
اور انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ (سب فرضی معبودوں کو بھول کر) اپنے رب ہی کو پکارتا ہے اسی کی طرف رجوع ہو کر مگر جب وہ اس کو (تکلیف کی بجائے) نواز دیتا ہے اپنی طرف سے کسی نعمت سے تو یہ بھول جاتا ہے اس (مصیبت و تکلیف) کو جس کی طرف وہ اس کو بلا (اور پکار) رہا تھا اس سے پہلے اور (اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ) وہ اللہ کے لئے شریک بنانے لگتا ہے تاکہ (اس طرح) وہ بہکائے اللہ کی راہ سے (دوسروں کو سو ایسوں سے) کہہ دو کہ تم مزے کرلو اپنے کفر کے ساتھ تھوڑا سا عرصہ بلاشبہ (انجام کار) تم دوزخیوں میں سے ہو1
16 توحید خداوندی فطرت سلیمہ کی پکار : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ توحید خداوندی فطرت سلیمہ کی پکار ہے۔ اس لیے مشرک انسان بھی مصیبت کے وقت اللہ ہی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ سو یہ فطرت کی وہ صدا و پکار ہے جو ہر انسان کے اندر قدرت کی طرف سے ودیعت فرمائی گئی ہے۔ مگر ہائے افسوس کہ آج کے کلمہ گو مشرک نے اپنی فطرت سلیمہ کو اس قدر بگاڑ کر رکھ دیا ہے کہ وہ سختی اور تکلیف کے ایسے مواقع پر بھی خدائے پاک کی بجائے اس کی عاجز مخلوق ہی میں سے کسی کو پکارتا ہے۔ کہیں وہ کہتا ہے " یا علی مدد "۔ کہیں " یا بہاؤ الحق بیڑا دھک "۔ کہیں " معین الدین اجمیری پار لگا دے کشتی میری " اور کہیں " یا پیر دستگیر " وغیرہ وغیرہ۔ نہیں آتا اس کی زبان پر تو " یا اللہ مدد " ہی نہیں آتا۔ حالانکہ اللہ پاک کے ان پیاروں نے خود ساری عمر اسی کی تعلیم و تلقین فرمائی کہ ہمیشہ اور ہر حال میں مدد امداد کے لئے اللہ ہی کو پکارو۔ اور وہ خود اپنی ہر نماز میں اور ہر نماز کی ہر رکعت میں اسی کے حضور دست بستہ عرض کرتے تھے ۔ { اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ } ۔ مگر ہائے افسوس کہ شیطٰن کے اغواء وتلبیس کے باعث آج انہی پاکیزہ ہستیوں کے نام پر شرک کا کاروبار چلایا جا رہا ہے ۔ فَاِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکٰی وَھُوَ المُسْتعان فِیْ کل حِیْنٍ مِّنَ الْاحْیان وبکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال ۔ بہرکیف یہ اس تنگ نظر انسان کی مشرکانہ اور ناشکری کی نفسیات کا ایک نمونہ و مظہر ہے کہ مصیبت پر وہ اللہ ہی کو پکارتا ہے لیکن بعد میں اس سے منہ موڑ لیتا ہے۔ بہرحال توحید خداوندی فطرت سلیمہ کی پکار ہے۔ اور جو لوگ اس کے خلاف کہتے اور کرتے ہیں انہوں نے دراصل اپنی فطرت کو مسخ کردیا ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔ 17 انسان کی ناشکری اور احسان فراموشی کا ایک نمونہ و مظہر : سو یہ تنگ ظرف انسان کی کوتاہ ظرفی احسان فراموشی اور ناشکری کا ایک مظہر ہے کہ مصیبت میں تو وہ اللہ کو پکارتا ہے مگر بعد میں وہ پھرجاتا ہے۔ سو یہ انسان کے تنگ دل اور تھڑ حوصلہ ہونے کا ایک کھلا مظہر ہے۔ اسی لئے حضرت خالق ۔ جل مجدہ ۔ نے اس کو " قتور "، " ہلُوْع " اور " جَزُوْع " فرمایا ہے۔ بہرکیف یہ اس تنگ ظرف اور کوتاہ نظر انسان کی تنگ نظری اور ناشکری کا ایک نمونہ و مظہر ہے کہ جب اس کو کوئی تکلیف اور مصیبت پہنچتی ہے تو یہ بڑی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگتا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس سے اس کی اس تکلیف کو دور کرکے اس کو اپنی کسی نعمت سے نواز دیتا ہے تو یہ اس مصیبت کو بھول جاتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے بخشے ہوئے فضل کو اپنے خودساختہ شریکوں کی طرف منسوب کرنے لگتا ہے۔ اور اس طرح وہ خود بھی خدا تعالیٰ کی راہ سے منحرف اور برگشتہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی راہ حق و ہدایت سے ہٹانے اور محروم کرنے کا مرتکب ہوتا ہے۔ اور اس طرح وہ ضلال اور اضلال کے دونوں جرموں کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ خسارہ در خسارہ میں مبتلا ہوتا ہے مگر اس کو اس کا کوئی شعور و احساس بھی نہیں ہوتا جس سے اس کی محرومی اور بدبختی کی سیاہی اور پکی ہوتی جاتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب اور زیغ وضلال کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین - 18 شرک کی سنگینی کے ایک اور پہلو کا ذکر : سو اس سے شرک کی سنگینی کے ایک اور پہلو کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ مشرک انسان اللہ کے فضل و کرم سے سرفرازی کے بعد شرک کا ارتکاب کرتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ مصیبت میں پھنسے ہوئے ایسے انسان کو جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے نواز دیتا ہے تو وہ اپنی اس مصیبت کو بھول جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے فضل و کرم میں وہ اس کے شریک بنانے لگتا ہے۔ چناچہ آج بھی آپ دیکھیں گے کہ ایسے موقع پر آج کا کلمہ گو مشرک جا کر کسی جبے قبے پر نذریں نیازیں دے گا، چڑھاوے چڑھائے گا اور کسی قبر پر دیگیں پکائے گا، مٹھائیاں تقسیم کرے گا۔ اور اس طرح کے کاروبار شرک کو فروغ دینے کے لئے طرح طرح کے جھوٹے قصے سنائے گا اور من گھڑت افسانے گھڑ گھڑ کہ پھیلائے گا کہ اجی یہ سب تو فلاں حضرت کا کرم اور فلاں سرکار کی عنایت ہے وغیرہ وغیرہ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو کیسی ناشکری اور بےانصافی ہے جس کا ارتکاب ایسا تنگ ظرف اور ناشکرا انسان کرتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 19 مشرک انسان کے ڈبل جرم کا ذکر : کہ وہ ضلال کے ساتھ اضلال کے جرم کا بھی ارتکاب کرتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ایسا نا شکرا انسان اللہ کے لیے شریک ٹھہرانے لگتا ہے تاکہ اس طرح وہ بہکائے اللہ کی راہ سے ۔ دوسروں کو ۔ " کیونکہ جب دوسرے اس سے سنیں گے کہ ایسی مشکلات اور مصائب و آفات میں کام آنے والی ذات اللہ وحدہ لاشریک کی ذات نہیں بلکہ فلاں فلاں حضرات اور فلاں فلاں سرکاریں اور ہستیاں ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ اللہ پاک وحدہ لاشریک کی بجائے انہی خودساختہ سرکاروں اور ہستیوں کی طرف رجوع کریں گے کہ حاجت روا و مشکل کشا تو یہی ہستیاں اور سرکاریں ہیں۔ سب کچھ انہی کے ہاتھ میں ہے۔ تو پھر اللہ کی طرف جانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ بس انہی ہستیوں کو خوش کرو۔ انہی کے در پر حاضری دیتے رہو۔ یہی تمہارا سب کام بنادیں گی وغیرہ وغیرہ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس طرح ایسے ناشکرے اور بےانصاف لوگ ضلال اور اضلال کے دوہرے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں اور نور حق و ہدایت سے خود محروم ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی محروم کرتے ہیں۔ اور جرم بالائے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔ 20 کفر و شرک کے فائدے محض چند روزہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ کفر و شرک کے فائدے محض چند روزہ ہیں اور اس کے بعد ایسوں کے لیے دوزخ کا ہولناک عذاب ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ کفر و شرک کے ان ماروں اور بطن و فرج کے تقاضوں کے ان پجاریوں سے کہو کہ مزے کرلو تم لوگ اپنے کفر کے ساتھ تھوڑا سا عرصہ کہ تم یقینا دوزخیوں میں سے ہو۔ یعنی چند روزہ دنیاوی زندگی کی اس محدود فرصت میں جو آج تم لوگوں کو ملی ہوئی ہے اور جو کہ آخرت کی حقیقی اور ابدی زندگی کے مقابلے میں ایک دو منٹ کی حیثیت بھی نہیں رکھتی کہ محدود کی لامحدود کے مقابلے میں کوئی نسبت ہو ہی نہیں سکتی۔ اس میں اپنے کفر و شرک کے ذریعے مزے کرلو تم بہرحال دوزخی ہو۔ اور جب یہ فرصت حیات اس قدر محدود و مختصر ہے تو پھر اس کے مزوں اور عیش پرستیوں کی حیثیت ہی کیا ہوسکتی ہے ؟ جبکہ وہ آخرت کی ابدی زندگی کو بھول کر کئے جا رہے ہوں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ایسوں سے فرمایا گیا کہ اپنے کفر اور ناشکری کے باوجود تم لوگوں کو اس چند روزہ دنیاوی زندگی میں جو نعمتیں مل رہی ہیں ان سے فائدے اٹھا لو اور عیش کرلو۔ آخرکار تم نے دوزخ کا ایندھن بننا ہے۔ وہاں سب کسر نکل جائے گی ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جن بدبختوں کا آخری انجام یہ ہونا ہو ان کا دنیاوی زندگی کے ان چند روزہ فائدوں پر مست ہونا کس قدر خسارے اور سخت خسارے کا سامان ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین۔ 21 کفر و شرک کا انجام بہرحال دوزخ ۔ والعیاذ باللہ العظیم : ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ چند روزہ زندگی میں عیش کرلو۔ یقینا تم دوزخیوں میں سے ہو۔ سو جن بدبختوں کا انجام یہ ہونا ہے اور انہوں نے دوزخ کی اس ہولناک آگ کا اس طرح ایندھن بننا ہے تو ان کو آج اگر دنیا بھر کی دولت بھی مل جائے تو بھی ان کو کیا ملا۔ اور ان کی محرومی اور بدنصیبی کا ٹھکانا ہی کیا ہوسکتا ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس تنبیہ و تذکیر میں بھی رحمت و عنایت خداوندی کا یہ پہلو ہے کہ اگر تم لوگوں کو اپنے اس ہولناک انجام سے بچنا ہے تو آج اس کی فکر و کوشش کرو کہ آج اسکا موقع موجود ہے کہ کفر و انکار اور بغاوت و سرکشی کی اپنی موجودہ روش ترک کرکے ایمان و اطاعت اور شکر خداوندی کی راہ کو اپناؤ۔ قبل اس سے کہ عمر رواں کی یہ فرصت محدود تمہارے ہاتھوں سے نکل جائے۔ جس کے بعد تمہارے لیے حق و ہدایت کی طرف رجوع کا کوئی موقع باقی نہ رہے اور تم ہمیشہ کے اس خسارے میں مبتلا ہوجاؤ جسکی تلافی وتدارک کی پھر کوئی صورت بھی تمہارے لیے ممکن نہ رہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top