Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا : کہ نہ تُقْسِطُوْا : انصاف کرسکوگے فِي : میں الْيَتٰمٰى : یتیموں فَانْكِحُوْا : تو نکاح کرلو مَا : جو طَابَ : پسند ہو لَكُمْ : تمہیں مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں مَثْنٰى : دو ، دو وَثُلٰثَ : اور تین تین وَرُبٰعَ : اور چار، چار فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تمہیں اندیشہ ہو اَلَّا : کہ نہ تَعْدِلُوْا : انصاف کرسکو گے فَوَاحِدَةً : تو ایک ہی اَوْ مَا : یا جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : لونڈی جس کے تم مالک ہو ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓى : قریب تر اَلَّا : کہ نہ تَعُوْلُوْا : جھک پڑو
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو اس بات کا کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے یتیموں کے بارے میں، تو تم نکاح کرلیا کرو ان دوسری عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں، دو دو، تین تین، اور چار چار، لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے (ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان) تو پھر تم ایک پر ہی اکتفا کرلیا کرو، یا ان باندیوں پر جن کے مالک ہوں تمہارے داہنے ہاتھ، یہ زیادہ قریب ہے اس کے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو،
7 رشتوں کے بگاڑ سے بچنے کی تعلیم و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا اور ڈرو تم لوگ رشتوں [ کے بگاڑ ] سے "۔ کہ ان کے بارے میں کہیں تم قطع رحمی یا حق تلفی کے مرتکب نہ ہوجاؤ کہ یہ بڑا کبیرہ گناہ ہے، حدیث پاک میں وارد ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قاطع رحم، یعنی رشتہ داری کو کاٹنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا (بخاری کتاب الادب، مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب) اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس کا ایمان ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر، تو وہ صلہ رحمی کرے، (بخاری کتاب الادب) سو اس سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی ایمان کا تقاضا ہے وباللّٰہ التوفیق وھوالہادی الی الصِّدق والصّواب سو جس طرح تم لوگ خدا کا واسطہ دیکر دوسروں سے اپنے حقوق اور مفادات کا مطالبہ اور سوال کرتے ہو اسی طرح تم رحم کا واسطہ دے کر بھی دوسروں سے سوال اور مطالبہ کرتے ہو۔ اور خدا اور رحم کے واسطے سے کی جانے والی اپیل اور اس پر مبنی مطالبہ چونکہ فطرت پر مبنی ہوتا ہے اس لئے اکثر حالات میں یہ اپیل موثر بھی ہوتی ہے، تو پھر تم لوگ خداوند قدوس اور رحم کے حقوق کیوں بھول جاتے ہو ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ 8 یتیموں کے بارے میں عدل و انصاف کی تعلیم و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا اور اگر تمہیں یتیموں سے بےانصافی کا خوف و خدشہ ہو تو تم اس سے بچنے کے لئے آئندہ بتائی جانے والی ہدایات پر عمل کرو اور ان کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ نہیں کرنا جس طرح کہ زمانہئ جاہلیت میں ہوتا تھا کہ یتیم بچیوں میں سے جن کے پاس مال وغیرہ ہوتا، یا ان کا حسن و جمال ان کو پسند آتا، تو ان کے سرپرست ان سے خود نکاح کرلیتے، اور ان کے مہروں وغیرہ کے سلسلہ میں وہ ان سے بےانصافی کرتے ‘ اس لئے ان کو اس طرز عمل سے روکنے کیلئے یہ پابندی عائد کی گئی ‘ کہ ایسی صورت میں تم ان یتیم بچیوں کے ساتھ خود نکاح کرو بعد میں اسی کے بارے میں سورة نساء کی آخر والی آیت کریمہ نازل ہوئی وَیَسْتَفْتُوْنَکَ فِیْ النِّسَائ الایۃ ا اسی پابندی کو رفع فرما دیا گیا یہ تفسیر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے، آپ ؓ کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے روایت کی ہے، (بخاری کتاب التفسیر، کتاب النکاح، مسلم، ابودؤد، کتاب النکاح) سو اس طرح دین حق کی ان رحمتوں بھری تعلیمات نے ان مظلوم عورتوں کو اس ظلم و ستم سے ہمیشہ کے لئے سے نجات دلا دی فالْحَمْدُ لِلّٰہ رَبّ الْعٰلَمِیْنَ بہرکیف اس پابندی کا تعلق اس خاص پس منظر سے ہے، اور اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جو عورتیں تمہارے لئے حلال ہوں ان سے تم نکاح کرلو بشرطیکہ ان کی تعداد چار سے کسی صورت زائد نہ ہونے پائے اور تم ان کے درمیان عدل قائم رکھ سکو۔ ورنہ تم لوگ اس اجازت واستحقاق کے حق نہ ہوؤ گے۔ 9 یتیموں کے بارے میں بےانصافی کے اندیشے سے متعلق حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تم لوگوں کو یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکنے کا اندیشہ ہو تو تم ان دوسرے عورتوں سے نکاح کرلیا کرو جو تمہیں پسند ہوں دو دو تین تین اور چار چار۔ اسلام چونکہ دین فطرت اور دین حق ہے، اور اس کی مقدس تعلیمات سراسر حکیمانہ اور عادلانہ ہیں، اس لئے اس نے نہ تو کثرت ازدواج پر بالکل پابندی عائد کی، کہ اس کی ضرورت بہرحال رہتی ہے، جو کہ بعض اوقات استحباب اور جواز کے درجے میں ہوتی ہے، اور بعض اوقات لزوم و وجوب کے درجے میں، اور نہ ہی اس نے اس کی کھلی اور غیر مشروط چھٹی دی ہے، بلکہ زیادہ سے زیادہ چار تک کی اجازت دی ہے، اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ تم لوگ متعدد بیویوں کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھ سکو ‘ پس اگر تم کو یہ اندیشہ ہو کہ تم ان کے درمیان عدل و انصاف نہیں کرسکو گے، تو پھر تم ایک سے زیادہ نکاح مت کرو، یہ طریقہ تمہیں حق و انصاف پر قائم و استوار رکھنے کے لئے زیادہ صحیح ہے، سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ بیویوں کے معاملہ میں عدل و انصاف کی شرط ایک ایسی اٹل شرط ہے کہ اس کے لئے کسی لچک کی کوئی گنجائش نہیں، اور تعدد ازدواج کے سلسلے میں اس شرط کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ 10 بیویوں کے بارے میں عدل وانصاف کی تعلیم اور ایک مغالطے کی تردید : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تم لوگوں کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ تم [ ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان ] انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر تم ایک ہی بیوی پر اکتفاء کرو یا اپنی ان باندیوں پر جن کے مالک ہوں تمہارے داہنے ہاتھ۔ یہ اس بات کے زیاد قریب ہے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو۔ تَعُوْلُوْا عول سے بنا ہے جس کے معنی جھکنے اور مائل ہونے کے ہیں، یعنی راہ حق و صواب سے ادھر یا ادھر ہوجانا، سو اس سے روکا اور منع فرمایا گیا ہے، کہ یہ ظلم و زیادتی اور بےانصافی ہے، اور دین حق کبھی ظلم و زیادتی اور بےانصافی کی اجازت نہیں دے سکتا، والحمدللہ والْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم، مگر واضح رہے کہ اس سے مراد وہ عدل و انصاف ہے جو انسان کے اپنے اختیار میں ہو، یعنی کھانے پینے اور بود و باش وغیرہ امور میں، رہ گیا معاملہ قلبی میلان اور طبعی رحجان کا تو وہ اس میں داخل نہیں کہ وہ انسان کے بس میں نہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا، وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْ اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النَّسَائ وَلَوْحَرَصْتُمْ فَلا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْل فَتَذَرُوْھَاَ کَالْمُعَلَّقَۃ الایۃ (النسائ۔ 129) یعنی تم لوگ اپنی عورتوں کے درمیان کبھی انصاف نہیں کرسکو گے اگرچہ تم اس کی پوری حرص بھی کرو، پس تم کسی ایک طرف پوری طرح ایسے نہ جھک پڑنا کہ دوسری کو اس طرح کردو جس طرح کہ وہ لٹکی ہوئی ہے۔ اور جیسا کہ نبی اکرم ﷺ اپنی زوجات مطہرات کے درمیان ظاہری اور اختیاری حقوق کی تقسیم کے بعد فرمایا کرتے تھے، یعنی اے میرے اللہ یہ میری تقسیم ہے ان امور کے بارے میں جو میرے اختیار میں ہیں، پس ان امور کے بارے میں میری گرفت نہیں فرمانا جو میرے بس اور اختیار میں نہیں ہیں، سو اس آیت کریمہ میں زوجات کے درمیان جس عدل کی نفی ہے اس سے مراد وہ عدل و انصاف ہے جو دل کی محبت اور تعلق کے اعتبار سے ہوتا ہے، لہٰذا اس سے منکرین حدیث کا وہ مغالطہ رفع ہوجاتا ہے، جو وہ تعدد ازواج کے بارے میں لوگوں کو دیتے ہیں، کیونکہ جو عدل و انصاف مطلوب و مامور ہے وہ اور ہے اور جس کی نفی کی جا رہی ہے وہ اور۔ سو ان دونوں کو ملا کر مغالطے میں ڈالنا ایک ابلیسی منطق ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔
Top