Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 54
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۚ فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا
اَمْ : یا يَحْسُدُوْنَ : وہ حسد کرتے ہیں النَّاسَ : لوگ عَلٰي : پر مَآ اٰتٰىھُمُ : جو انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل فَقَدْ اٰتَيْنَآ : سو ہم نے دیا اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : آل ابراہیم الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَاٰتَيْنٰھُمْ : اور انہیں دیا مُّلْكًا : ملک عَظِيْمًا : بڑا
کیا یہ لوگ حسد کرتے ہیں دوسرے لوگوں پر، ان نعمتوں کی بناء پر جن سے اللہ نے ان کو نوازا ہے اپنے فضل (وکرم) سے، سو (اگر ایسے ہیں تو یہ جلتے رہیں کہ) بیشک ہم سرفراز کرچکے ہیں ابراہیم کی آل (اولاد) کو بھی کتاب وحکمت (کی نعمت) سے، اور ہم ان کو نواز چکے ہیں بہت بڑی بادشاہی سے1
129 حسد یہودیوں کی ایک عمومی اور قومی خصلت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا یہ لوگ دوسروں پر حسد کرتے ہیں ان نعمتوں کی بنا پر جن سے اللہ نے ان کو اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے ؟۔ معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی بخشی ہوئی نعمت کی بناء پر کسی سے حسد اور جلن رکھنا دراصل یہودی شیوہ ہے، جس سے مسلمان کو بہرصورت پرہیز کرنا چاہیئے۔ اور استفہام تقبیح اور انکار کیلئے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر حسد اور اعتراض کرنے کا حق کسی کو نہیں ہوسکتا۔ ایک تو اس لیے کہ وہ خالق کل اور مالک مطلق ہے۔ جو چاہے اور جیسے چاہے کرے۔ اور دوسرے اس لیے کہ وہ علیم وخبیر اور حکیم مطلق ہے۔ اس لیے وہ جو بھی کچھ کرتا ہے وہ سراسر حق و صدق اور علم و حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے کسی بھی حکم و ارشاد کا نہ کوئی متبادل ممکن ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی کو اس پر اعتراض کا کوئی حق ہوسکتا ہے۔ بہرکیف اس ارشاد کے ذریعے یہود کی عداوت کے اصل سبب سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ ان لوگوں کی جلن اور ان کے غصے کا اصل سبب ان کا یہ حسد ہے کہ نبوت ان کے خاندان سے نکل کر دوسروں کو یعنی بنو اسماعیل کو کیوں منتقل ہوگئی ہے۔ حالانکہ نبوت و رسالت اور شریعت اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور انعام و احسان ہے اور وہ اپنے فضل و کرم سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے ۔ سبحانہ وتعالی ۔ کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق کس طرح ہوسکتا ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 130 آل ابراہیم پر قدرت کی نوازشوں کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ ہم نواز چکے ہیں آل ابراہیم کو کتاب و حکمت کی دولت سے اور ان کو سرفراز کرچکے ہیں بہت بڑی بادشاہی سے۔ سو آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور حکومت و بادشاہی دونوں سے نوازا گیا۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام۔ داؤد اور سلیمان ۔ (علیہما السلام) ۔ کہ ان کو نبوت و رسالت کے شرف کے ساتھ ساتھ دنیاوی حکمرانی اور بادشاہی کے شرف سے بھی نوازا گیا۔ تو اب اگر خاندان ابراہیمی ہی کی دوسری شاخ یعنی بنو اسماعیل میں سے حضرت محمد ﷺ کو نبوت کے اس شرف عظیم سے نوازا گیا تو اس پر آخر یہ حسد اور اس قدر جلن کیوں ؟ نیز اس میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ کتاب و حکمت سے سرفرازی حکومت و بادشاہی سے سرفرازی کا بھی ذریعہ و وسیلہ ہے اور یہود بےبہود کو اصل فکر اسی کی تھی کہ اس مادہ پرست قوم کے نزدیک اصل اہمیت اسی دنیا اور مادی فوائد و منافع کی ہے۔ سو اس سے اشارہ فرما دیا گیا کہ اگر تم لوگ صدق دل سے اس کتاب حکیم پر ایمان لاؤ گے تو دنیاوی عظمت سے بھی سرفراز ہوؤ گے اور اخروی فوز و فلاح سے بھی۔
Top