Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 58
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے اَنْ : کہ تُؤَدُّوا : پہنچا دو الْاَمٰنٰتِ : امانتیں اِلٰٓى : طرف (کو) اَھْلِھَا : امانت والے وَاِذَا : اور جب حَكَمْتُمْ : تم فیصلہ کرنے لگو بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ اَنْ : تو تَحْكُمُوْا : تم فیصلہ کرو بِالْعَدْلِ : انصاف سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ نِعِمَّا : اچھی يَعِظُكُمْ : نصیحت کرتا ہے بِهٖ : اس سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے (اے ایمان والوں) کہ تم حوالے کرو امانتوں کو ان کے حقداروں کے، اور (یہ کہ) جب تمہیں فیصلہ کرنا ہو ان لوگوں کے درمیان تو تم فیصلہ کرو عدل (وانصاف) کے ساتھ، بیشک بڑی ہی عمدہ ہے وہ بات جس کی نصیحت فرماتا ہے اللہ تم کو، بیشک اللہ بڑا ہی سننے والا دیکھنے والا ہے،
134 امانات سے مراد اور امانت کے مفہوم کی وسعت ؟ : سو امانات سے مراد عام ہے۔ یعنی وہ سب حقوق جو تمہارے ذمے واجب ہوں۔ خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے۔ سو ان سب کے اداء کرنے کا مطالبہ ہے۔ (جامع البیان، ابن کثیر، صفوۃ التفاسیر، وغیرہ) ۔ سو ہر وہ چیز جو کسی کے ذمے اور اس کے اعتماد پر چھوڑی گئی ہو وہ امانت کہلاتی ہے۔ اور امانات کا یہ لفظ یہاں پر بڑے وسیع مفہوم میں استعمال فرمایا گیا ہے جو تمام حقوق و فرائض کو عام اور حامل ہے۔ خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے۔ وہ انفرادی نوعیت کے ہوں یا اجتماعی نوعیت کے۔ اپنوں سے متعلق ہوں یا بیگانوں سے۔ مالی معاملات کی قسم سے ہوں یا سیاسی معاہدات کی قسم سے۔ غرض جو بھی اور جیسے بھی حقوق و فرائض ہوں، وہ سب ہی امانت کے مفہوم میں داخل ہیں اور اس لفظ کے عموم میں سب ہی شامل ہیں۔ اور ان سب کو ہی ادا کرنا مامور و مطلوب ہے۔ اور اہل ایمان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ سب امانتوں کو ادا کریں۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 135 عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کی ہدایت : سو ارشاد فرمایا گیا اور یہ کہ تم لوگ فیصلہ کرو عدل وانصاف کے ساتھ۔ کسی جانبداری اور لگی لپٹی کے بغیر تاکہ ہر صاحب ِحق کو اس کا پورا حق مل سکے اور کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ اور جب حق کے علمبردار تم ہی ہو تو تم سے ہر حال میں عدل و انصاف مطلوب ہے۔ اپنے عمل و کردار میں بھی اور اپنے قول وقرار میں بھی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلْوُا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی } الاٰیۃ (الانعام : 153) یعنی تم بات کرو تو عدل و انصاف ہی کی بات کرو، اگرچہ وہ شخص تمہارا قریبی ہو۔ سو اس ارشاد سے امانت کے سب سے اہم پہلو کی نشاندہی بھی فرما دی گئی اور اقتدار کے ساتھ جو ذمہ داری وابستہ ہے اس کی وضاحت بھی ۔ وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ وَیُرِیْد ۔ بہرکیف عدل وانصاف دین کے اہم اور بنیادی مطالب میں سے ہے۔ 136 اللہ پاک کی نصیحت سب سے عمدہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ تم لوگوں کو بڑی ہی عمدہ بات کی نصیحت فرماتا ہے۔ کیونکہ وہ " علیم وخبیر " بھی ہے، " رحمان و رحیم " بھی اور " لطیف و کریم " بھی۔ پھر اس سے بڑھ کر بہتر بات اور کس کی ہوسکتی ہے ؟ لہٰذا اس رب رحمان و رحیم کی ہدایت کو تم لوگ دل و جان سے اپناؤ اور اس کو ہمیشہ اور ہر حال میں اپنے پیش نظر رکھو۔ نہ اس میں کسی طرح کی کوئی پس و پیش کرو نہ کسی قسم کی عصبیت، جانب داری یا سہل انگاری کو اس میں آڑے آنے دو اور نہ کسی طرح کے اثر و نفوذ یا خوف و طمع کو اس میں دخل انداز ہونے دو ۔ بلکہ ٹھیک حق و ہدایت کو اپنے پیش نظر رکھو ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید -
Top