Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 64
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا مِنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا : مگر لِيُطَاعَ : تاکہ اطاعت کی جائے بِاِذْنِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم سے وَلَوْ : اور اگر اَنَّھُمْ : یہ لوگ اِذْ ظَّلَمُوْٓا : جب انہوں نے ظلم کیا اَنْفُسَھُمْ : اپنی جانوں پر جَآءُوْكَ : وہ آتے آپ کے پاس فَاسْتَغْفَرُوا : پھر بخشش چاہتے وہ اللّٰهَ : اللہ وَاسْتَغْفَرَ : اور مغفرت چاہتا لَھُمُ : ان کے لیے الرَّسُوْلُ : رسول لَوَجَدُوا : تو وہ ضرور پاتے اللّٰهَ : اللہ تَوَّابًا : توبہ قبول کرنیوالا رَّحِيْمًا : مہربان
اور ہم نے جو بھی کوئی رسول بھیجا اس لئے بھیجا کہ اس کی اطاعت (فرمانبرداری) کی جائے اللہ کی اذن سے، اور اگر یہ لوگ (جنہوں نے یہ حماقت کی تھی) جب ظلم کر بیٹھے تھے اپنی جانوں پر، تو سیدھے آجاتے آپ کے پاس، اور اللہ سے معافی مانگتے (اپنے جرم کی) اور رسول ﷺ بھی ان کیلئے (اپنے رب کے حضور) معافی کی درخواست کرتا، تو یقینا یہ لوگ اللہ کو پاتے بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا، انتہائی مہربان
151 رسول کی اطاعت ہی اصل مقصود ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے جو بھی کوئی رسول بھیجا ہے تو وہ اسی لیے بھیجا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ اس کے سب اوامرو ارشادات میں، نہ یہ کہ احکام و معاملات میں۔ تو یہ لوگ چلیں اپنی خواہش ومرضی پر اور زبانی کلامی دعوے ہوں ایمان و محبت رسول کے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ لیکن افسوس کہ آج کے مسلمان کا حال بھی بالعموم یہی ہے کہ وہ عشق و محبت رسول کے بلند بانگ دعو وں کے باوجود پیغمبر کے طریق اور اس کی سنت کے اتباع سے منہ موڑے ہوئے ہے ۔ اِلّا مَا شائَ اللّٰہ ۔ فَاِنَّا لِلّٰہ واِنَّا اِلَیْہ رَاجِعُوْنَ ۔ یہاں پر جو " باذن اللہ " کی قید لگی ہوئی ہے وہ بڑی معنیٰ خیز ہے کیونکہ حکم تو اللہ کا حکم ہے اور حاکم حقیقی وہی وحدہ لاشریک ہے۔ لیکن وہ چونکہ اپنے رسول کو اس کا اذن دیتا اور اس منصب سے سرفراز فرماتا ہے کہ وہ لوگوں کو اس کے حکم و ارشاد اور امر و نہی سے آگہی بخشے۔ اور اسی لیے وہ پیغمبر کو ہر غلطی اور خطا سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس لیے رسول اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا مظہر ہوتا ہے اور اس لیے اس کی اطاعت ایمان کا لازمی تقاضا اور اللہ کی اطاعت کے ہم معنیٰ بن جاتی ہے۔ سو اصل حاکمیت اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور رسول اس کی تشریعی اور قانونی حاکمیت کا مظہر ہوتا ہے۔ اس لئے رسول کی اطاعت اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہوتی ہے کہ وہ اسی کے اذن سے ہوتی ہے۔ بہرکیف اس ارشاد سے رسول کا صحیح مرتبہ و مقام واضح فرما دیا گیا کہ رسول کے بارے میں صرف اتنی بات کافی نہیں کہ ان کو مان لیا جائے اور بس۔ بلکہ رسول اس لئے بھیجا جاتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ وہ صرف عقیدت ہی کا مرکز نہیں ہوتا اطاعت کا مرکز بھی ہوتا ہے۔ وہ صرف واعظ اور ناصح ہی نہیں ہوتا بلکہ واجب الاطاعت ہادی بھی ہوتا ہے۔ اس کو بھیجا ہی اس لئے جاتا ہے کہ لوگ اس کی اطاعت کے آئینے میں اپنی زندگی استوار کرسکیں۔ وہ اللہ کی برہان اور اس کی اطاعت کا نشان بھی ہوتا ہے۔ اس کی اطاعت کے بغیر راہ حق نصیب نہیں ہوسکتی ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 152 ظلم کا ارتکاب کرنے والوں کیلئے صحیح راستہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا اپنی جانوں پر سیدھے آپ کے پاس آجاتے۔ یعنی آپ ﷺ کی زندگی میں آپ کے پاس آتے (جامع البیان وغیرہ) ۔ اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے چھوڑے ہوئے دین متین کی تعلیمات مقدسہ کی طرف رجوع کرتے۔ اس موقع پر ایک اعرابی (دیہاتی) کا جو قصہ بعض تفسیروں میں ذکر کیا گیا ہے وہ نہ تو معتبر سند کے ساتھ ثابت ہے اور نہ ہی اس طرح کے عام قصوں کو دینی احکام اور خاص کر عقائد کے بارے میں حجت اور سند قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس طرح کہ اھل بدعت کا شیوہ ہے۔ بلکہ محققین نے تو اس قصہ کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے جیسا کہ شیخ محمد بن احمد بن عبدالہادی نے " الصارم --- " میں اس کی تصریح فرمائی اور تفصیل سے لکھا ہے۔ (الصارم : 2 12 ) ۔ اور یہ قصہ موضوع ہو یا نہ ہو، آیت کریمہ کی تفسیر بہرحال اس پر موقوف نہیں بلکہ اس میں توبہ و استغفار اور گناہوں کو معاف کرنے کیلئے ایک عام ضابطہ اور اصول بیان فرمایا گیا ہے، جو ہمیشہ کیلئے کام آنے والا اور عقل و نقل کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ کسی صاحب ایمان کے لئے اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ وہ رسول کی عدالت کو چھوڑ کر اپنا معاملہ طاغوت کی عدالت میں لے جائے۔ اور جو ایسا کرے گا وہ خود اپنی ہی جان پر ظلم ڈھائیگا ۔ والعیاذ باللہ ۔ اس لئے کہ یہ چیز فی الحقیقت خداوند قدوس کی حاکمیت کا انکار اور بالواسطہ کفر و شرک کا ارتکاب ہے جو کہ سب سے بڑا ظلم ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف گناہوں کی معافی کا طریقہ توبہ واستغفار اور رجوع الی اللہ ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 153 گناہوں کو معاف کرانے کا صحیح طریقہ استغفار : سو اس سے واضح کردیا گیا کہ ان کے لئے صحیح اور سیدھا طریقہ یہ تھا کہ گناہ اور ظلم کے ارتکاب کے بعد یہ لوگ طاغوت کی طرف رجوع کرنے کی بجائے اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے کئے کی معافی مانگتے۔ اور رسول بھی اپنی معروف و مشہور رحمت وشفقت کی بنا پر ان کے لئے معافی اور بخشش کی دعاء فرماتے تو ان کے گناہ معاف ہوجاتے۔ اور گناہوں کی میل ان سے دھل جاتی۔ سو توبہ و استغفار کی عنایت قدرت کی ایک عظیم الشان عنایت ہے جس سے اس نے اپنے فضل و کرم سے اپنے بندوں کو نوازا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والوں کے لئے اصلاح احوال اور عواقب بد سے نجات کی راہ صرف یہی تھی کہ وہ رسول کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی غلطی کا اعتراف کرتے اور اپنے خالق ومالک سے مغفرت و بخشش کی دعا و درخواست کرتے اور رسول بھی ان کے لئے دعاء مغفرت کرتے تو اللہ ان کی دعا و درخواست کو قبول کرتا اور ان پر رحم فرما دیتا۔ اس کے سوا ان کے لئے تلافی کی کوئی شکل نہیں۔ 154 اللہ تعالیٰ کی شان توابیت و رحمت کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا انتہائی مہربان ہے۔ اتنا بڑا کہ نہ اس کے توبہ قبول کرنے کی کوئی حد و انتہاء ہے اور نہ اس کی مہربانی اور رحمت و عنایت کی کوئی نہایت ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو وہ قبول توبہ کے ساتھ ساتھ ان کو اپنی رحمتوں سے بھی نوازتا ہے کہ وہ " توّاب " کے ساتھ ساتھ " رحیم " بھی ہے۔ سو یہ تھا ان کیلئے سیدھا راستہ اور صحیح طریقہ۔ مگر منافقت کے مارے ان بدبختوں نے اس کی بجائے الٹی راہ اپنائی اور اپنا ہی برا کیا۔ یہاں سے یہ بھی واضح اور ظاہر ہوگیا کہ ایمان و یقین کی دولت اور اس کے نور مبین سے انسان کو صحیح راستہ ملتا ہے، اور اس کو صحیح سمت میں قدم اٹھانے کی توفیق وسعادت نصیب ہوتی ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { یَہْدِیْہِمْ رَََبُّہُمْ بِاِیْمَانِہِِِمْ } جبکہ کفر و نفاق سے انسان اوندھا اور اندھا ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ایمان و یقین کی دولت دارین کی سعادت و سرخروئی کا ذریعہ اور کفر و انکار منبع شر و فساد ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کہ نور ایمان و یقین سے محرومی کے بعد انسان طرح طرح کے اندھیروں ہی میں بھٹکتا رہتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top