Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 65
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
فَلَا وَرَبِّكَ : پس قسم ہے آپ کے رب کی لَا يُؤْمِنُوْنَ : وہ مومن نہ ہوں گے حَتّٰي : جب تک يُحَكِّمُوْكَ : آپ کو منصف بنائیں فِيْمَا : اس میں جو شَجَرَ : جھگڑا اٹھے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر لَا يَجِدُوْا : وہ نہ پائیں فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں حَرَجًا : کوئی تنگی مِّمَّا : اس سے جو قَضَيْتَ : آپ فیصلہ کریں وَيُسَلِّمُوْا : اور تسلیم کرلیں تَسْلِيْمًا : خوشی سے
پس نہیں، قسم ہے آپ کے رب کی (اے پیغمبر ﷺ ! ) یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ یہ آپس کے جھگڑوں میں آپ کو (برضا ورغبت) اپنا منصف نہ مان لیں، پھر آپ کا جو بھی فیصلہ ہو اس سے یہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں، اور اسے دل وجان سے تسلیم کرلیں،
155 معاملہ ایسا نہیں جیسا کہ لوگوں نے سمجھ رکھا ہے : یعنی ایسا نہیں جیسا کہ ان لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ اپنے باہمی معاملات اور تنازعات تو یہ لوگ ارشادات نبوی ﷺ سے منہ موڑ کر اپنی خواہشات ومرضی کے مطابق طے کریں اور پیغمبر کی محبت و اطاعت کا محض زبانی کلامی دم بھریں اور بس۔ جیسا کہ پہلے بھی ہوتا تھا اور آج بھی جگہ جگہ اور طرح طرح سے ہو رہا ہے۔ سو کلمہ " لا " سے نفی اسی ذہنیت کی کی جا رہی ہے۔ اور " وَرَبِّک " کی قسم سے اس کے عکس کا اثبات کیا جا رہا ہے، جو کہ اس کے بعد مذکور ہے۔ پس جو حضرات اس " لا " کو زائد کہتے ہیں وہ صحیح نہیں کہتے، بلکہ ایسے موقع پر " لا " کا استعمال بڑا بلیغ پر معنیٰ اور مستقل ایک جملے کے قائم مقام ہوتا ہے۔ اور یہ عربی زبان اور محاورے کا ایک معروف اسلوب ہے جو عربوں کے یہاں آج بھی مروج و معروف ہے۔ چناچہ عرب اپنے عام محاورات میں کہتے ہیں " لَا وَاللّٰہ " اور " بَلَی وَاللّٰہ " وغیرہ۔ سو اسی مفہوم کو ہم نے اپنے ترجمہ کے اندر اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے کھولا ہے ۔ فالحمد للہ الذی لا تتم الصالحات الا بتوفیق منہ جل وعلا - 156 ایمان کیلئے ایک اہم کسوٹی : سو یہ ہے ایمان کی اصل کسوٹی، جو عبارت ہے تین شرطوں سے۔ اول یہ کہ اپنے تمام جھگڑوں اور تنازعوں میں حکم اور منصف پیغمبر ﷺ کی پیش فرمودہ سچی تعلیماتِ " قرآن و سنت " ہی کو قرار دیا جائے۔ اور پھر قرآن و سنت سے ملنے والے اس فیصلے پر اپنے دل میں کوئی حرج اور تنگی بھی محسوس نہ کی جائے۔ اور پھر تیسری بات یہ ہے کہ اسے دل و جان سے تسلیم کر کے اپنایا جائے۔ اب اس معیار و کسوٹی پر آپ خود اپنے آپ کو اور اپنے اردگرد کے سب مسلمانوں کو پرکھ کر دیکھ لیں کہ کون کتنے پانی میں ہے اور اپنے دعوائے ایمانی میں کون کس قدر حق بجانب ہے ؟ سو یہ ایمان و یقین کی دولت کو پرکھنے کے لیے ایک اہم اور بینادی کسوٹی ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
Top